تحریر: سید شعیب الدین احمد ( چاچو )
ہجرت۔۔ پڑھنے کے بعد آپ کو یقیناَ یہی لگا ہوگا کہ میں بھی ملک سے ہجرت کر رہا ہوں ۔ مگر ایسا نہیں ہے ۔ ویسے بھی میرے نزدیک ہجرت کرنا میرے نبی کی سنت ہے ۔ انہوں نے مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے واضح پیغام دیا ہے کہ جب ” حالات ” اتنے خراب ہو جائیں کہ جان ، مال ، عزت ، مذہب سب خطرے میں ہو تو ہجرت کر لینی چاہیے ۔ خیر میرے پاس اتنے وسائل نہیں کہ کینیڈا میں سرمایہ کاری کرکے ” شہریت خرید ” سکوں ۔ لہذا ” جیسے تیسے ” اسی آسمان تلے ” گزر بسر ” کرنا ہے . باقی جہاں تک ” تازہ ہجرت ” کا سوال ہے تو یہ وہ ہجرت ہے جو مجھے اور میری فیملی کو صحافی کالونی کے حالات کی وجہ سے وقتا فوقتاً کرنی پڑتی ہے ۔ صحافی کالونی میں مئی 2014 میں اپنے گھر میں رہائش اختیار کی تھی ۔ تب سے آج تک 10 برسوں میں بلا مبالغہ 10 مرتبہ ” عارضی ہجرت ” کرچکا ہوں اور اس عارضی ہجرت پر مجھے ہمیشہ ” مس بجلی ” نے مجبور کیا ہے ۔ میری صحافی کالونی یا بقول کچھ صحافی دوستوں ” صحافی پنڈ ” سے یہ 10 ہجرتیں تب ہوئیں جب ٹرانسفارمر جل گیا اور ہمیں ” اپنا ٹرانسفارمر ‘” ٹھیک کروانے کیلئے چندہ اکٹھا کرکے ٹھیک کروانا پڑا ۔ اس دوران ایک رات سے ایک دن تک اپنے بھائی یا اپنی اہلیہ کے بھائی کے گھر میں ” پناہ ” حاصل کرنا پڑی ۔ لیکن ٹرانسفارمر جلنے سے بڑی ایک مصیبت میرے گھر کا ” کارنر پلاٹ ” ہونا بھی ہے ۔ کسی کالونی میں کارنر پلاٹ نعمت کہلاتا ہے مگر صحافی کالونی میں میرے گھر کے کارنر پر ٹھیکیدار نے کھمبے سے تار ایک موٹے تار کے ذریعے زمین میں اتار کر دوسری سائیڈ روڈ کے کھمبے پر پہنچائی ہے ۔ اس تار کے اندر موسلادھار بارش کا پانی چلا جاتا ہے اور یہ جل جاتی ہے ۔ گزشتہ روز یہ واقعہ تیسری مرتبہ پیش آیا ہے ۔ پہلی مرتبہ مجھے چھوٹے بھائی کے گھر تین دن کیلئے پناہ لینا پڑی تھی ۔ دوسری مرتبہ جب یہ مسئلہ درپیش ہوا تو دوست نہیں بلکہ بڑے بھائی جناب عرفان علی فیڈرل سیکرٹری پانی و بجلی ( واپڈا ) تھے ماضی کے تجربے کے پیش نظر ان سے ” مدد ” مانگی آور پھر ” فیڈرل سیکرٹری ” کی طاقت کا نظارہ محلے داروں نے بھی دیکھا ۔ لیسکو کے ” طاقتور افسران ” نے مجھے فون کئے اور ” فوری فیصلے ” کی طاقت رکھنے والوں کو ” موقع ” پر بھجوایا گیا ۔ وہی کام جو پہلی مرتبہ تین دن میں کروا سکا تھا ‘ اسلام آباد میں بیٹھے ” بڑے بھائی ” کی طاقت نے گھنٹوں میں کروایا ۔ اب پھر ہجرت کا ” عالم ” ہے ۔ گزشتہ روز یعنی منگل 20 اگست کو فجر کی نماز کے بعد ” صحافی پنڈ ” میں بجلی چلی گئی ۔ یہ پتہ چلتے ہی کہ سارا ” صحافی پنڈ ” بجلی سے محروم ہوا ہے گھر کے تمام افراد حفظ ماتقدم ایک کمرے میں محدود ہوگئے کہ UPS زیادہ دیر چل سکے ۔ دوپہر بارہ بجے بجلی بحال ہوئی تو پتہ چلا کہ ہمارے ڈی بلاک میں صرف تار نہیں گری ہمارا ٹرانسفارمر جسے گزشتہ ماہ ہی پیسے دے کر مرمت کروایا تھا پھر خراب ہے ۔ اب ٹرانسفارمر ٹھیک کروانے کیلئے پیسے جمع کرنے کی مہم شروع ہوئی ۔ شام 6 بجے UPS جواب دے گیا ۔ اپنی کمر کی بیماری کی مجبوری کے باوجود پوتوں سمیت گھر کے گیٹ پر ” ہوا کی تلاش ” میں آبیٹھا ۔ خیر 8 بجے کے قریب ٹرانسفارمر ” ادھورا ” ٹھیک ہوا اور مکمل ٹھیک کرنے کے چکر میں پہلے ٹرانسفارمر دھماکے سے اڑا اور ساتھ ہی گھر کے باہر کھمبے سے نیچے زمین میں جانے والی تار میں خوفناک دھماکے کے ساتھ چنگاریوں کی بارش ہوئی ۔ خوش قسمتی سے میں اور میرے دونوں معصوم ہوتے بچ گئے ۔ اب میں 20 گھنٹے سے اپنی اہلیہ کے بڑے بھائی کے گھر میں پناہ گزین ہوں ( اپنے بھائی کا گھر تیسری منزل پر ہونے کی وجہ سے وہاں جا نہیں سکتا ) ۔ یہ ہے صحافی پنڈ سے ہجرت کی کہانی شنید ہے ” کام ” ہو رہا ہے جلد ” خوشخبری” ملے گی اور گھر واپس جا سکیں گے ۔