تحریر: فراز ہاشمی۔۔
ایم ضیاء الدین کو گزشتہ روز اسلام آباد کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ضیا صاحب کی قبر پر مٹی ڈالنے والوں میں اکثریت اسلام آباد اور راولپنڈی کی صحافتی برادری کی تھی۔بلاشبہ وہ پاکستان کی صحافت میں ایک بڑا نام تھے اور حسب روایت کسی بھی مشہور اور نامور شخصیت کی رحلت کے بعد اب ان کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا اور شائع کیا جائے گا۔ سوشل میڈیا پر بھی تعزیتی پیغامات کا تانتا بندھا ہوا ہے۔
ایم ضیاالدین کی پوری زندگی بے باک، حق اور سچ سے بھرپور اور لالچ اور طمع سے پاک، ذاتی کدورتوں اور نفرتوں سے ماورا صحافت کی غماز تھی۔ایک طویل عرصے سے ان کو بہت قریب سے دیکھنے والوں میں شامل ہونے کی وجہ سے مجھ سے جب یہ کہا گیا کہ کچھ لکھوں تو ذہن جیسے تاریک ہو گیا کہ کیا لکھوں۔والد اور چچا کے ہم عصر صحافیوں میں شامل ہونے کی وجہ سے مجھے ’انکل‘ ضیاء سے شناسائی کا موقع کم عمری میں مل گیا تھا۔ایک زمانے میں روزنامہ ڈان اور روزنامہ حریت کے دفاتر راولپنڈی میں کشمیر ہاؤس کے ساتھ العباس مارکیٹ کی پہلی منزل پر ہوا کرتے تھے۔ میرے چچا اشرف ہاشمی مرحوم حریت کی نمائندگی کرتے تھے اور ان کی ساتھ والی میز پر ضیا صاحب ڈان کے لیے خبریں لکھا کرتے تھے۔پھر صحافی بن جانے اور اس کے بعد روزنامہ ڈان اسلام آباد میں نوکری کے دوران ضیاالدین صاحب کی زیر سرپرتی ایک دہائی سے زیادہ تک کام کرنے کا موقع نصیب ہوا۔
اب اگر ضیا صاحب کے لیے کوئی مجھے ایک جملہ لکھنے کا کہے تو میں اپنے دوست اور ساتھی رفاقت علی کا جملہ مستعار لوں گا۔ ‘ضیا صاحب کے ساتھ صحافت کا ایک عہد ختم ہو گیا۔جب کوئی ان سے چھٹی کی درخواست کرتا تو وہ اکثر حیران ہو کر کہا کرتے تھے کہ صحافیوں کو چھٹیوں کی کیا ضرورت ہوتی ہے۔ اسلام آباد کے اکثر صحافی جانتے ہیں کہ ضیا صاحب کی سب سے بڑی صاحبزادی کا جب کم عمری ہی میں انتقال ہو گیا تو ضیا صاحب اسلام آباد کے قبرستان سے سیدھے زیرو پوائنٹ پر اپنے دفتر آ بیٹھے۔ اس وقت مجھے لگا کتنا عجیب شخص ہے اس قدر غم میں بھی دفتر آ گیا۔ایم ضیا الدین کا میدان معیشت تھا اور وہ ملک کی معیشت پر کئی دہائیوں تک خبریں کرتے رہے اور بڑی باقاعدگی سے ڈان کے ‘اکانومک پیجز’ پر کالم لکھتے رہے۔ سیاست پر انھوں نے کالم بہت بعد میں لکھنا شروع کیے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں پر سیاسی تبصروں پر مبنی کالم پریس گیلری سے انھوں نے لکھنا شروع کیا۔ڈان اسلام آباد بیورو میں ضیا صاحب کی زیر نگرانی کام کرنے والوں اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کو ان کے سیاسی نظریات کے بارے میں بہت اچھی طرح اندازہ تھا لیکن ان کی تحریروں سے ان کی سیاسی ہمدردیوں کا اندازہ لگانا بہت مشکل تھا۔ فوجی آمر ضیا الحق ہو یا پرویز مشرف، جمہوری حکمران بے نظیر ہوں یا نواز شریف وہ صحافی ضیا الدین سے کبھی خوش نہیں رہے۔
حکومتی عہدوں کی پیش کشیں ہمیشہ ان کے ‘ڈسٹ بن’ میں پڑی رہتی تھیں۔ کسی حکومت نے انھیں اکنامک ایڈوائزر لگانا چاہا، کوئی پیمرا کا سربراہ لگا کر انھیں خاموش کرنا چاہتا تھا اور سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کا ڈی جی بنانا تو کوئی بات نہیں تھی۔اسلام آباد میں نیو سٹی پراجیکٹ کو انھوں ہی نے سب سے پہلے بے نقاب کیا تھا جس کے بعد یہ منصوبہ کبھی شروع ہی نہیں کیا جا سکا۔ اس بات کا ذکر اس لیے بھی ضروری تھا کہ ضیا صاحب اس شہر میں 1970 کی دہائی سے صف اول کے صحافی رہے جو شہر ان کے سامنے تعمیر ہوا اور جس میں چھوٹے بڑے صحافی جی اور ایف سیکٹروں میں محل نما کوٹھیاں کھڑی کرتے رہے، راول ڈیم سے سے پرے فارم ہاوسز تک بناتے رہے اور اسی شہر کے آئی سیکٹر کے ایک چھوٹے سے گھر میں ضیا الدین رہتے رہے۔ نہ کوئی احساس محرومی اور نہ کوئی حرف شکایت۔یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ اسلام آباد میں سی ڈی اے کے چیئرمین گردیزی کے زمانے میں پلاٹ الاٹ کرنے کے لیے صحافیوں کی جو فہرست بنائی گئی تھی وہ ڈان اسلام آباد بیورو میں ضیا الدین کی میز کے ساتھ والی میز پر ایک ٹائپ رائٹر پر مرحوم شاہد الرحمان صاحب نے مرحوم احمد حسن علوی صاحب کی نگرانی میں بنوائی تھی۔اس کے بعد 1988 میں بے نظیر کے دور میں بے گھر صحافیوں کو چھت مہیا کرنے کے لیے جو فہرست بنی اور جس میں سے صرف پانچ صحافیوں کو ہی پلاٹ مل سکے وہ فہرست بھی ڈان اسلام آباد کے دفتر میں اس وقت آر آئی یو جے کے صدر ناصر ملک نے ہی بنائی تھی لیکن نہ ضیا صاحب نے پلاٹ لیا اور نہ ناصر ملک نے۔
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں پیپلز میڈیا فاؤنڈیشن بنائی گئی اور اسلام آباد کے آئی 8 سیکٹر کے مرکز میں فلیٹ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا جس میں ضیا الدین صاحب کو بھی فلیٹ الاٹ کیا گیا۔ ضیا صاحب نے الاٹمنٹ کی وہ دستاویزات راقم کی موجودگی میں اس وقت کے وزیر اطلاعات احمد سعید اعوان کی میز پر دے ماریں۔اپنی زندگی کے آخری چند برس انھوں نے اپنے بڑے بیٹے ڈاکٹر اطہر جو ماہر امراض قلب ہیں اور سعودی عرب میں طویل عرصے تک کام کر چکے ہیں ان کی مدد سے میڈیا ٹاؤن میں بنائے گئے اپنے گھر کی چھت تلے گزارے۔صحافی کی حیثیت سے ضیا صاحب کی توقعات پر پورا اترنا کم از کم میرے لیے تو ناممکن ہی رہا۔ ان کی زبان سے حرف تعریف سننا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ صحافی کا تھکنا اور چھٹی کرنا ان کی لغت میں ہی نہیں تھا۔ایک زمانے میں جب نواز شریف اٹک جیل میں مقدمات کا سامنا کر رہے تھے، ان دنوں دفتر کی طرف سے حکم تھا کہ کراچی میں کاپی ڈاؤن ہونے تک ایک رپورٹر اسلام آباد بیورو میں موجود رہے گا۔ایک دن رفاقت علی کو اٹک جانا تھا اور دفتر میں رات دو بجے تک بیٹھنے کی ان کی باری تھی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ آج میری جگہ تم رات تک رک جانا۔
دفتر سے روز مرہ کا کام ختم کرنے کے بعد ضیا صاحب رات گئے اسلام آباد میں ہونے والی کسی محفل کے بعد عادتاً دفتر واپس آ جاتے تھے۔ اس رات بھی ضیا صاحب دفتر آ گئے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے رفاقت کہاں ہے۔ ضیا صاحب کے سامنے میرے منہ سے سیدھی بات بھی نہیں نکلتی تھی۔ میں نے کہا کہ سر وہ صبح سویرے اٹک چلا گیا اور تھک گیا تھا۔ تو ضیا صاحب نے کہا صحافی تھکتے بھی ہیں؟ان کی اس بات کو آج تک یاد کرتے ہوئے ہنسی نکل جاتی ہے لیکن ان کے جانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ صحافی بھی شاید تھک جاتا ہے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)