تحریر: شاہ حسین
ٹاوٹ آف نام نہاد مالکان حضرات سے معذرت کے ساتھ۔۔مجھے وہ دن یاد ہے جب اڑھائی دو سال قبل بول کی تباہی کے آغاز میں ہم سبھی بس اس بات پر خاموش تھے کہ۔۔تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔۔کے مصداق ہمارا کیا لینا دینا۔۔۔
جیو کا زوال شروع ہوا تو ہم کبوتر کی طرح آنکھیں موندے رہے۔ پھر آے آر وائی۔ ڈان اور سماء سمیت وقت نیوز میں ایسا سلسلہ چلا جو بالآخر اس کی مکمل بندش پر ختم ہوا۔۔دنیا نیوز کی تو بات ہی نہ کریں۔ (نام کا اثر ہے آنا جانا لگا ہی رہتا ہے)۔ کئی فیز آئے کئی گئے۔ حتی کہ تین سال میں 13 ڈائریکٹر نیوز آئے اور گئے یا گنوائے گئے۔۔ گویا۔۔اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔۔ہم ہر بار اس مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیکتے رہے سرنڈر کرتے رہے اپنی انا پر خود ہی پاوں رکھ کر اسے کچلتے رہے۔ اپنی خاطر، پیٹ کی خاطر، گھر بار کی خاطر۔۔
میں دن نیوز میں بابائے صحافت نعیم صاحب سے اکثر اس بات کا شکوہ کرتا کہ آپ بزرگان صحافت نے آنیوالے وقت کے لیے ہمارے لیے کیا، کیا۔ کیوں ایسا نظام وضع نہیں کیا جاسکا جس میں صحافت سے وابستہ افراد کی جاب سیکیورٹی۔ بروقت تنخواہوں کی ادائیگی۔ میڈیکل سہولیات۔ سالانہ گروتھ۔ اپریزل کا غیر ٹی سی نظام۔ رائز اینڈ شائن افراد کا انتخاب وغیرہ شامل ہو۔ آج جب خود کو بے بس پاتا ہوں تو ان کی خاموشی سمجھ آتی ہے
ہم میں سے ہر دنیا دار زندگی اسی مفروضے پر گذارتا ہے کہ آگ پڑوس میں لگی ہے تو مجھے کیایہ نہیں سوچتا کہ آگ بڑھ کر میرے دروازے پہ بھی آ پہنچی تو کیا ہوگا۔ کل ایک بہت ہی واجب الاحترام سینئر دوست کا فون آیا۔شاہ جی۔۔ہم نیوز سے بھی 50 افراد کو جبری نکال دیا۔۔50 فیصد تنخواہوں کو کٹ لگایا گیا اور بندگان مزدور کے اوقات 8 سے بڑھا کر 10 گھنٹے کردئیے گئے ہیں۔۔۔اسپتال کے کوریڈور میں بیٹھا ہوا میں یہی سوچ رہا تھا۔ یہاں بیشتر لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔۔ایسی کشمکش میں نام نہاد میڈیا مالکان کب مبتلا ہوں گے؟؟اب آپ سوچ رہے ہوں گے شاہ جی ایسا نہیں کہتے سب کے لیے خیر مانگتے ہیں۔۔تو چلیں ان کے لیے ‘شرم آجائے’ مانگتے ہیں۔۔اب آپ ہنس کر کہیں گے کہ او نئیں آنڑی اینا نوں تو پھر پہلی والی دعا ہی ٹھیک رہنے دیں۔۔ اور ہاں اس پوسٹ کو شیئر نہ کیجیئے گا کیونکہ یہ وہ شعلہ ہے جسے حبس ہوا دیتا ہے۔۔(شاہ حسین)