sahafi apna ghar or waqar khud kun nai bachate

صحافی اپنا گھر اور وقار خود کیوں نہیں بچاتے ۔؟

تحریر:محمد نواز طاہر

عیسوی کیلنڈر سا ل کے آواخر میں ملک بھر میں وکلاءاور صحافیوں کی تنظیموں میں ا نتخابی سرگرمیاں ان کے پروفیشنل فرائض پر بھی غالب آجاتی ہیں کئی ایسی دیگر تنظیموں کے الیکشن بھی کیلنڈر ایئر میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ چلتے ہیں ، ایک زمانہ تھا جب تنظیموں کی رکنیت سازی میں قواعدو ضوابط کی احتیاط سختی سے برتی جاتی تھی تب ان کی فعالیت اور اہمیت آج سے زیادہ تھی ،وقت کے ساتھ ساتھ ان میں پیرا شوٹر آتے گئے یا لائے گئے تو اب کسی کی بھی کریڈیبلٹی ماضی جیسی نہیں رہی ۔ اس امر کو محسوس تو کیا جاتا ہے لیکن اس طرف دھیان نہیں دیا جاتا ، وجہ صرف ایک ہے کہ جو اس طرف دھیان دے گا وہ اپنا ووٹ بینک خراب کرے گا اور یہ یہ رِسک لینے کیلئے کوئی تیار نہیں جس کے نتیجے میں اس کا انحصار خالص پروفیشنل لوگوں کے بجائے پیرا شوٹرز پر ہوتا ہے اور ادھر ہی فوکس کیا جاتا ہے ۔ ماضی کی سب سے زیادہ کریڈبلٹی والی تنظمیوں اور اداروں میں وکلاءاور صحافی سر فہرست رہے ہیں ۔ معاشرے کے دیگر شعبوں کی طرح یہ بھی بدترین انحطاط کا شکار ہیں قاعدے قانون کی بات دوسروں سے بڑھ چڑھ کرتے ہیں اور خود ہی ان قواعد پر بھی چڑھ دوڑتے ہیں ۔

 ان دنوں ملک کے سب سے بڑے پریس کلب ’ لاہور پریس کلب ‘ کے الیکشن اور رکنیت سازی کا مرحلہ چل رہا ہے جو کچھ ہورہا ہے اور آئندہ کچھ دنوں میں ہوتا دکھائی دے رہا ، اسے دیکھتے ہوئے ماضی کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے لیکن تکنیکی بے چارگی نے سبھی کو ’صبرِجمیل ‘عطا کررکھا ہے پھر بھی کہیں نہ کہیں بے صبری اور اضطراب پیمانہ صبر چھلکا دیتا ہے جو مختلف دوستوں کی نجی محفلوں اور حقیقی گفتگو میں ٹوٹتا ہوابھی دیکھا گیا ہےجو اس امر کی واضح علامت ہے کہ ابھی جسم مردہ نہیں ہوا ، زندگی موجود ہے ۔

 لاہور پریس کلب میں تقریباً دو ہزار افراد نے رکنیت کی درخواستیں دے رکھی ہیں ، رکنیت دینے کا اختیار دستور کے مطابق اس کے تابع رہتے ہوئے کلب کی گورننگ بادی کو حاصل ہے اور اگر یہ دستور کے منافی ہو تو معاملہ جنرل کونسل میں اٹھایا جاسکتا ہے لیکن دو دہائیوں سے یہ رواج ختم ہوچکا ہے مگر جس طرح کی درخواستیں جمع ہوئی ہیں اور جو جو چہرے درخواستیں جمع کرواتے دیکھے گئے ہیں وہ تشویش پیدا کررہے ہیں کہ اگر وہ چہرے رکن بنے یا رکن بننے کے بعد کل کو اپنے جیسی پیرا شوٹرز قوتوں کی مدد سے منتخب ہوئے تو لاہور پریس کلب کی شناخت کیا ہوگی ؟ یہاں اس المیے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ لوگ اس تشویش کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن اس سنگین مسئلے کے حل میں عملی قدم اٹھانے اور مزاحمت سے گریزاں ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ کچھ لوگ تو بالکل ہی نچلے درجے کے گھٹیا قسم کے مفاد کیلئے بھی غیر مستحق لوگوں کو رکن بنوانے کیلئے سرتوڑ کوشش کرتے ہیں اور یہ بھی اتفاق ہے کہ ان میں مردوزن میں تفریق بھی نہیں ، اس مقصد کیلئے بوگس لیٹر بھی تیار کیے جاتے ہیں اور حوالے بھی بھاری بھر کم دیے جاتے ہیں ، ساتھ ہی پاکبازبھی بنتے ہیں ، یعنی یہ ’زاہد مسجد میں بیٹھ کر شراب پیتے ہیں ‘ اس سے مراد زاہد عابد ( سیکرٹری پریس کلب ) ہرگز نہ لیا جائے اور پھر غیر مستحق افراد کو رکن بنائے جانے پر ذمہ دار اور قصور وار بھی کلب کی گورننگ باڈی کو ٹھہراتے ہیں ، ایسے شرفاءکئی ایک ہیں۔

 کئی روز سے کچھ احباب اس معاملے پر بات کرنے پر زور دے رہے تھے ، حالات و واقعات نے فرصت نہیں دی نہ ہی لکھنے کا موقع مل سکا ، ابھی بھی بخوبی علم ہے کہ لکھے جانے سے یا بولنے سے شائد کچھ بہت زیادہ اچھا نہیں ہونے والا لیکن اپنے حصے کی شمع جلانا لازم ہے ، شائد یہ شمع تمام برائیوں کا ذمہ دار اور قصور وار ٹھہرئے جانے سے بچانے میں کلب کی باڈی کیلئے معاون بھی ثابت ہو ؟

 میڈیا انڈسٹری کی زبوں حالی کسی سے پوشیدہ نہیں ، اداروں میں ڈاؤن سازی اور کارکنوں کا معاشی قتل عام ، بے کاری بیگاری عام ہے تو دوسری جانب لاہور سے شائع ہونے والے اخبارات اور نیوز ایجنسیوں کی تعداد شمار کریں تو سب کا شمار ہی نہیں ہوپاتا اور اگر اتنے ادارے وجود رکھتے ہیں تو پھر یہ بیکاری اور بے روزگاری جعلی لگتی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے ؟ درحقیقت یہ سب ’ڈمی‘ ادارے ہیں، اگر ڈمی ادارے نہیں تو ایک دکان میں بیٹھ کر اخبار سازی کیسے ہورہی ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو ان کے دفاتر کہاں ہیں ؟ ان میں کام کرنے والے اسٹاف ممبرز کہاں ہیں ؟ ان کی پبلیکیشنز کیا کاپی پیسٹ کے ماسوا بھی ہے ؟ جتنے ادارے کاغذات میں وجود رکھتے ہیں؟ اگر ان کے ملازمین حقیقی وجود رکھتے ہوں تو اتنی بے روزگاری کیوں ہو ؟ ان اداروں کے آئی ٹی این میں اسٹاف اور ان کی تنخواہوں کے بابت کیا ڈیکلیریشن جمع ہوئے ہیں ؟ سرکاری اداروں سے محض مک مکا کرکے یا سرکار کی خوشنودی سے اشتہارات لینے سے کوئی ادارہ مکمل ادارہ نہیں بن جاتا ، ادارے افراد کے ساتھ ہوتے ہیں ؟اگر اشتہارات ہی معیار ہیں تو یہ جان لیں کہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ان ڈمی اداروں سمیت شائع ہونے والے اخبارات کی تعداد کے مطابق پاکستان میں کوئی ایساشخص باقی بچتا ہی نہیں جو پڑھنا لکھنا نہ جانتا ہو اور کلی طور پر ناخواندہ ہو۔

 پریس کلب کے الیکشن سے پہلے نئی رکنیت سازی کو سیاست زدہ بھی کیا جارہا ہے اور غالباً نئی ممبر شپ الیکشن کے بعد ہونے جارہی ہے تو کیا یہ معاملہ کھلے عام زیر بحث نہیں لایا جانا چاہئے کہ جن اداروں کے اسٹاف ممبر کی حیثیت سے درخواستیں آئی ہیں ان کا وجود اور فعالیت کیا ہے ؟ یہاں یہ ذکر شائد کسی بحث کیلئے ایک نکتہ ثابت ہوسکے کہ جس وقت فارم جمع کروانے سے پہلے وصول کیے جارہے تو ایک صاحب نے اپنا فارم لیا ، اس کے بعد دریافت کیا کیا اور فارم مل سکتا ہے تو اثبات میں جواب ملنے پر انہوں نے ایک اور فارم لیا اس کا جو نام درج کروایا اس کے مطابق وہ نام موصوف کی بیٹی یا بیوی ہی کا ہوسکتا ہے جبکہ اس نام کے اخبار کا اسٹاف کبھی فیلڈ میں دیکھا ہی نہیں گیا ۔ صرف کلب کی گورننگ باڈی نہیں پروفیشنل سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنی صفوں میں کس قسم کے لوگوں کو گھسانے کی گنجائش پیدا کررہے ہیں ؟ اور ان لوگوں کی تائیدو تصدیق کرنے والے کون لوگ ہیں ؟ تصدیق اور تائید کنند گان کو بھی اس بحث میں شامل کرکے ذمہ داری کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔ اس اندھی رکنیت سازی میں صرف ایک چارم یہ ہے کہ جو سمجھتا ہے کہ وہ کلب کا رکن بن جائے گا توحکومت اسے پلاٹ الاٹ کرنے اور کلب کی باڈی اسے یہ پلاٹ’ جہیز ‘ میں دلانے کی پابند ہے جبکہ حقیقی صحافیوں کی بڑی تعداد ان پلاٹوں کی منتظر ہے۔۔ اور اس عمل میں پیش رفت کبھی سست اور کبھی تیز ہوجاتی ہے ، یہ پیرا شوٹرز نہ صرف آپ کا ماحول آلودہ کریں گے بلکہ آپ کے ان ساتھیوں کی حق تلفی بھی کریں گے جو آپ کے سامنے مشکلات برداشت کرتے آرہے ہیں ۔ان پیرا شوٹرز میں کچھ کو کلب میں پناہ درکار ہے تو کچھ اس کی قیادت کے خواہاں ہیں، اپنے گھر کا سربراہ اپنے گھر کے افراد میں سے ہی چنا جاتا ہے ، گلی محلے سے نہیں ۔ اب یہ انتخابی عمل بہترین موقع ہے کہ اس بحث کو عام کیا جائے اور کلب و کمیونٹی کی بہتری کے د کھائی دینے والے باعمل لوگوں کو منتخب کریں اور انہیں پابند بنائیں کہ وہ گھس بیٹھئیوں سے آپ کو محفوظ رکھیں گے ۔(محمد نوازطاہر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں