تحریر: حامد میر۔۔
یہ میری صحافتی زندگی کا ایک انوکھا تجربہ تھا۔ میں نے بطور ایک صحافی افغانستان سے لے کر عراق، شام، لبنان اور فلسطین میں ہونے والی جنگوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے،بوسنیا اور سری لنکا کے تامل علاقے جافنا میں لاشوں کے ڈھیر بھی دیکھے ہیں اور چیچنیا کے شہر گروزنی میں ایک امریکی صحافی کے ہمراہ روسی فوج کی قید کا سامنا بھی کیا ہے۔وار زون میں جنگ کی تباہ کاریوں کا نشانہ بننے والے مظلوم شہری عام طور پر چیخ و پکار اور فریاد کرتے نظر آتے ہیں لیکن 22اکتوبر کو آزاد کشمیر کے علاقے جورا میں بھارت کی گولہ باری کا نشانہ بننے والے نہتے کشمیری فریاد نہیں بلکہ اعلانِ جہاد کرتے ہوئے نظر آئے۔یہ صرف میری صحافتی زندگی نہیں بلکہ میرے ہمراہ جانے والے دو درجن کے قریب سفارت کاروں کے لئے بھی ایک انوکھا تجربہ تھا۔
ایک دن پہلے بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اُن کی فوج نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی وادی نیلم کے علاقے جورا میں دہشت گردوں کے تین ٹریننگ کیمپ تباہ کر دیئے ہیں۔اگلے ہی دن پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن سے رابطہ کیا اور پیشکش کی کہ آپ کے آرمی چیف نے جس جگہ ٹریننگ کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے آپ وہاں ہمارے ساتھ چلئے لیکن بھارتی ہائی کمیشن نے خاموشی سادھ لی۔اس خاموشی کا جواب دینے کے لئے افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور دو درجن غیر ملکی سفارتکاروں کے ساتھ جورا پہنچ گئے۔
جب ہم دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے نوسیری سے جورا کی طرف آ رہے تھے تو کچھ غیر ملکی سفارت کاروں نے نوٹ کیا کہ دریا کے پاس مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں بھارتی فوجی اپنی چیک پوسٹوں سے انہیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے لیکن اُن کے اردگرد مقامی لوگوں کی نقل و حرکت نظر نہیں آ رہی تھی۔آزاد کشمیر کی طرف پاکستانی فوج کی چیک پوسٹوں کے اردگرد مقامی لوگ آزادانہ گھوم پھر رہے تھے اور زندگی معمول کے مطابق جاری تھی۔ ہم ایک سویلین کوچ میں جورا جا رہے تھے اور ہماری کوچ کا مقامی ڈرائیور جگہ جگہ گاڑی آہستہ کر کے ہمیں بھارتی گولہ باری کے نشانات دکھا رہا تھا۔
جب ہم جورا کے بازار میں جا کر رُکے اور گاڑیوں سے نیچے اُترے تو ایک مقامی وکیل نے مجھے گلے لگا کر یاد دلایا کہ آپ 1998میں یہاں سے گزر کر اٹھمقام گئے تھے اور وہاں آپ کی گاڑی پر بھارتی فائرنگ ہوئی تو میرا بڑا بھائی زخمی ہوا تھا جو آپ کو مظفر آباد سے اٹھمقام لا رہا تھا۔ابھی اس وکیل کی بات مکمل نہ ہوئی تھی کہ مقامی لوگوں نے بھارت کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی اور میرے ساتھ آنے والے سفارتکار ان کشمیریوں کو حیران نظروں سے دیکھنے لگے۔جورا میں پاکستانی فوج کی دسویں سندھ رجمنٹ کے یونٹ ہیڈ کوارٹر میں ہمیں میجر جنرل آصف غفور نے ایک بریفنگ دی جس کے بعد ہم سفارتکاروں کے ہمراہ جورا بازار میں آ گئے اور پھر ہم جدھر بھی گئے خوفناک تباہی تھی۔
سفارتکار تباہ شدہ دکانوں اور مکانوں کی تصاویر بنا رہے تھے لیکن کہیں کوئی چیخ و پکار اور فریاد نہیں تھی بلکہ غصے میں بپھرے ہوئے کشمیری بھارتی فوج سے انتقام کی آگ میں جل رہے تھے۔ایک بوڑھے کشمیری نے مجھے کہا کہ ایل او سی کے اُس پار کے لوگ بھارتی فوج سے نفرت کرتے ہیں لیکن ہم اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں۔ اگر جنگ ہو گئی تو مقبوضہ کشمیر کے لوگ پیچھے محفوظ مقامات پر چلے جائیں گے لیکن میں کہیں نہیں جائوں گا جب میری فوج دشمن پر گولیاں اور بم برسائے گی تو میں پہاڑ پر چڑھ کر وہاں سے دشمن پر پتھر برسائوں گا۔
ایک سفارتکار نے مجھ سے پوچھا کہ یہ بوڑھا تمہیں کیا کہہ رہا تھا؟ جب میں نے اُسے انگریزی میں بتایا کہ یہ بوڑھا بھارتی فوج پر پتھر برسانے کی خواہش میں مبتلا ہے تو سفارتکار نے کہا…’’اب سمجھ آئی بھارتی آرمی چیف ان بوڑھوں کو مار کر اتنا خوش کیوں ہوتا ہے‘‘۔
سفارتکاروں نے اپنی تیز نگاہوں سے جورا بازار کے اردگرد ہونے والی تباہی کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد ایک دوسرے کو کہنا شروع کر دیا۔۔۔ یہاں تو کوئی دہشت گردی کا کیمپ نہیں ہے۔۔
ایک مغربی ملک کے فوجی اتاشی اپنی وردی میں یہاں آئے تھے اُنہوں نے کہا کہ میں نے بہت سے وار زون دیکھے ہیں لیکن کسی وار زون میں اتنے بہادر لوگ نہیں دیکھے جو اپنے مکانات تباہ ہونے کے بعد بھی ہجرت کے لئے تیار نہیں۔ایک اور سفارتکار نے مجھے پوچھا کہ جورا سے شاردا کتنی دور ہے؟ میں نے بتایا کہ زیادہ دور نہیں۔ اُس نے پوچھا کہ کرتار پور راہداری کھولنے کے بعد اگر شاردا کے لئے بھی ایک راہداری کھل جائے تو کیسا رہے گا؟ میں نے پوچھا کیا مطلب؟ سفارتکار نے کہا کہ شاردا ہندوئوں کے لئے ایک مقدس مقام ہے۔
البیرونی کی تصنیف ’’کتاب الہند‘‘ میں ہندوئوں کے شاردا میں ایک مندر کا ذکر ہے اگر مقبوضہ کشمیر کے راستے سے ہندو زائرین کے لئے شاردا آنا جانا ممکن بنا دیا جائے تو پاک بھارت کشیدگی میں کمی آ سکتی ہے۔میں نے پوچھا کہ کرتار پور راہداری اور شاردا کا راستہ کھولنے کے بعد مسئلہ کشمیر حل ہوگا یا نہیں؟ سفارتکار کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔
اس دوران ایک مقامی شخص نے قریب ہو کر میرے کان میں پوچھا نواز شریف صاحب کی طبیعت کیسی ہے؟ ابھی میں نے جواب نہیں دیا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی ساری اپوزیشن کو تو جیل میں ڈال دیا ہے کشمیر پر قوم متحد کیسے ہوگی؟ایک نوجوان نے مجھے بھارتی گولے کا ٹکڑا پیش کیا اور کہا کہ یہ ہماری طرف سے آپ کے لئے ایک یادگاری تحفہ ہے۔ یہ تحفہ پاکستان کے ارباب اختیار کو ضرور دکھایئے گا اور اُنہیں بتایئے گا کہ جب آپ آپس میں لڑ رہے تھے تو آپ کے کشمیری بہن بھائی بھارتی گولہ باری کا نشانہ بن رہے تھے۔
میں نے اس نوجوان کا ہاتھ تھاما اور کہا کہ گھبرائو نہیں، تم صحیح کہتے ہو پاکستان کے اہلِ سیاست آپس میں دست و گریبان ہیں لیکن جس دن دشمن نے حملے کی غلطی کر ڈالی ہم سب کچھ بھول کر دشمن کا متحد ہو کر مقابلہ کریں گے کیونکہ ہماری قیادت آپ کریں گے جو دشمن پر پتھر برسانے کا انتظار کر رہے ہیں۔اسی لئے سرینگر کے سنگ باز بچے اور شاردا کے سنگ باز بوڑھے بھارت کیلئے ایک ڈرائونا خواب بن چکے ہیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔