sach ya kahani farz kahani

صحافتی تنظیموں کونئے خون کی ضرورت

تحریر: سید بدرسعید

لاہور پریس کلب نے موجودہ صورت حال کے حل کے لئے تمام صحافتی تنظیموں اور یونینز کو ایک میز پر اکٹھا کر کے “جوائنٹ ایکشن کمیٹی ” تشکیل دے دی ہے ۔ اس کمیٹی میں سبھی کی نمائندگی ہے اور یہ کمیٹی مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دے گی ۔ بلاشبہ یہ ایک اچھا قدم ہے ۔ دوسری جانب میرے سامنے ایک اور منظر نامہ بھی نظر ہے۔ نوجوان صحافیوں کی ایک بڑی تعداد اب صحافتی تنظیموں اور یوجیز پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے لگی ہے ۔ یہ نوجوان کسی لیڈر کے بنا از خود اپنے فیصلے کرنے کی بات کرنے لگے ہیں ۔ گزشتہ دنوں میڈیا ہائوسز سے صحافیوں کو برطرف کرنے اور تنخواہوں کے معاملے پر نوجوانوں کی جانب سے از خود “صحافت انڈر اٹیک ” کی ہیش ٹیگ کمپین چلائی گئی تھی ۔ یہ کمپین کسی یونین ، تنظیم یا صحافتی راہنما کی جانب سے نہیں چلی ۔ یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ اب نوجوان صحافی اپنے مسائل کے لئے کسی مستند پلیٹ فارم کا سہارا لینے کی بجائے بغاوت اور عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں ۔ مسائل کے حل کے لئے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا قیام قابل تحسین ہے لیکن اس پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ۔ چند برس قبل بھی تمام یونینز کو یکجا کرنے کے لئے سینئرز پر مشتمل ایک “رہبر کمیٹی ” تشکیل دی گئی تھی ۔ تب بھی ایسی ہی تقاریر ہوئی تھیں لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔

کارکنوں کے مفادات کے نام پر ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے والے راہنمائوں کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر رہبر کمیٹی میں شامل سینئرز یہ معاملہ حل کئے بنا ہی الگ ہو گئے تھے ۔ اب بھی “صحافت انڈر اٹیک ” کا ہیش ٹیگ اسی لئے چلا کہ ایک ادارے سے چالیس کے لگ بھگ کارکنوں کو اچانک ملازمت سے نکال دیا گیا اور اسی ادارے میں تین بڑے منتخب راہنما تاحال کام کر رہے ہیں جن میں سے دو مختلف یونین کے بڑے عہدے دار ہیں ۔ ممکن ہے انہوں نے بھی اس حوالے سے کوشش کی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ خود بھی مسائل کا شکار ہوں لیکن برطرف کارکنوں کے حق میں کوئی توانا آواز بہرحال سامنے نہیں آ سکی تھی ۔ ماضی میں یونین لیڈر کو مالکان اچھا نہیں سمجھتے تھے اور لگ بھگ تمام بڑے صحافی یونین لیڈر نسبتا چھوٹے اداروں میں ملازمت کرتے تھے ، اب صورت حال مختلف ہے ۔ ہمارے کئی یونین لیڈر مالکان کی ناک کا بال ہیں اور لگ بھگ سبھی راہنما بڑےاداروں میں اچھے پیکج پر ملازمت کر رہے ہیں ۔ میرا مقصد کسی راہنما یا تنظیم کی توہین کرنا ہرگز نہیں ہے ۔ میں خود بھی یونین کا الیکشن جیتا اور لگ بھگ سبھی صحافتی تنظیموں کے ہمراہ کارکنوں کے حقوق کی خاطر سڑکوں پر نکلا ۔ میں صرف اس صورت حال کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جس کا ہمیں سامنا ہے ۔ ہم کسی میڈیا ہائوس یا مالکان کے بھی خلاف نہیں کیونکہ انہی اداروں کی بقا ہمارے ساتھیوں کے روزگار کی ضمانت ہے ۔ ہم صرف مسائل کا احسن حل چاہتے ہیں ۔ نوجوانون کا یونینز پر عدم اعتماد بڑھتا جا رہا ہے ۔ چند سال سے یوجیز کے الیکشن میں کتنے فیصد صحافی حصہ لے رہے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ۔

اب جوائنٹ ایکشن کمیٹی تشکیل پائی ہے ۔ یہ ضروری ہے کہ نوجون صحافیوں میں بڑھتی ہوئی بےچینی کے خاتمے کے لئے ہمارے سینئرز فوری طور پر برطرف ملازمین کی بحال ، واجبات کی ادائیگی ، جاب سکیورٹی اور بروقت تنخواہوں کو یقینی بنانے کے لئے ٹھوس لائحہ عمل طے کریں ۔ یونینز اور تنظیمیں ورکرز کی بدولت ورکرز کے لئے ہی ہوتی ہیں ، ان ورکرز کا عدم اعتماد بذات خود ان تنظیموں کی کمزوری کا باعث بنتا ہے ۔ پاکستان بھر کےصحافیوں میں اس وقت بے چینی کی کیفیت نظر آ رہی ہے ۔ اگر اس بار بھی ہمارے راہنما اور سینئرز ان مسائل کو حل نہ کر پائے تو مجھے نظر آ رہا ہے جلد ہی نوجوان صحافی تنظیموں سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے مسائل خود حل کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوں گے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ایسا ہوا کہ سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس میں از خود دی گئی کال پر یہ نوجوان کسی تنظیم / یونین کے پلیٹ فارم کا سہارا لیے بغیر کسی لیڈر کے بغیر سڑکوں پر نکل آئے تو پھر ہماری یوجیز اور تنظیموں کی کیا اہمیت رہ جائے گی ؟ سچ کہوں تو اگر بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو پھر مجھے ایسا ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ وہ وقت دور نہیں جب کارکنوں میں سے حقیقی راہنما از خود سامنے آ جائیں گے اور ایک حقیقی یونین تشکیل پائے گی ۔ مجھے ایک ایسا احتجاج بھی یقینی لگنے لگا ہے جسے کوئی لیڈر لیڈ نہیں کر رہا ہو گا بلکہ کارکن از خود باہر نکل آئیں گے ۔ ایسا ہوا تو یہ یوجیز ، تنظیموں اور راہنمائوں پر عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ مایوسی کی آخری حد کی بھی نشاندہی کرے گا ۔(سید بدر سعید، سابق جوائنٹ سیکرٹری پنجاب یونین آف جرنلسٹس )

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں