mein kiske hath mein apna lahu talash karu | Umair Ali Anjum

 صحافتی تنظیموں کے رہنمابھی کمال کرتے ہیں

تحریر: عمیرعلی انجم۔۔

کہتے ہیں کہ جب ہلاکو خان بغداد کے نزدیک پہنچ گیا تھا تو اس وقت کے علماء کرام اس بات پر بحث کررہے تھے کہ کوا حلال ہے یا حرام؟ غداروں نے بھی حسب توفیق ہلاکو کا ساتھ دیا اور پھر اس چنگیزی خون نے بغداد میں وہ قیامت ڈھائی کہ وہاں کے دریا انسانی خون سے سرخ ہوگئے اور غداروں کا انجام وہی ہوا جو ہمیشہ تاریخ ہوتا آیا ہے مگرافسوس اس سے کبھی کسی غدار نے سبق نہیں سیکھا۔ ایسے میں ہلاکو نے نیا یہ کیا کہ ان غداروں کوقالینوں میں لپیٹ کر مروادیا۔اب آپ پوچھیں گے کہ مجھے اچانک سے سقوط بغداد ،ہلاکو،اس وقت کے علماء اور غدار کیوں یاد آگئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں جب بھی سندھ ہائی کورٹ میں صحافیوں پرڈبل سواری کی پابندی کے خلاف درخواست کی پیروی کرنے جاتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ “کے یو جے الف تا ی” اس بحث میں لگے ہوئے ہیں کہ عمیر علی انجم کی آئینی درخواست حلال ہے یا حرام اور وقت کے ہلاکو ہمارے حکمران شادیانے بجارہے ہیں ۔

یہ جو ہمارے “سورما” ہیں پہلے میں سمجھتا تھا کہ شاید ان میں شرم نام کی کوئی ایک آدھ دھجی تو شاید بچی ہوگی لیکن مجھے اب یہ یقین ہوگیا ہے کہ یہ شرم سے بالکل عاری اور بے حس لوگ ہیں اور ان کو اپنے مفادات ہر شے سے زیادہ عزیز ہیں۔ میں اپنے صحافی بھائیوں سے سوال کرتا ہوں کہ آج کے دور میں وہ کون ساایسا عام صحافی ہے جو اپنی تنخواہ میں سے روزانہ کی بنیاد پر رکشہ اور ٹیکسی کا کرایہ برداشت کرنے کی سکت رکھتا ہے؟ ڈبل سواری پر پابندی سے کوئی نام نہاد لیڈر متاثر نہیں ہوا اس لیے یہ ان  کامسئلہ نہیں ہے اور انہوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جو ان کااپنا ذاتی مسئلہ نہ ہو وہ اس کو مسئلہ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔

وہ ہنسوں کی طرح تعلق نبھاتے ہوئے مرجانے والا شاعر عباس تابش پہلے ہی کہہ گیا ہے کہ “گلہ کریں جنہیں تجھ سے بڑی امیدیں تھیں ہمیں تو خیر اعتبارتھا ہی نہیں” مجھے تو ان کم ظرف لوگوں سے کوئی امید تھی ہی نہیں لیکن میرے کچھ دوست کہتے تھے کہ یہ صحافی برادری کا مسئلہ ہے یہ اپنے مفادات کو پیچھے رکھتے ہوئے تمہاری اخلاقی مدد کو ضرور آئیں گے میں بس ان کی باتیں سن کر مسکراتا رہتا تھا کیونکہ نیوز ایکشن کمیٹی نام ہی ایک ردعمل کاہے اور اگر یہ رہنمائی کے دعویدار اتنے ہی گنی ہوتے تو مجھے یہ سب کرنے کی ضرورت ہی پیش کیوں آتی۔ ان کا مسئلہ صحافیوں کے مسائل نہیں بلکہ انکی اپنی سیاست ہے۔ آپ میرا یقین کریں اگر خدانخواستہ میں یہ کیس ہارگیا تو یہ اس دن جشن منائیں گے بلکہ ہوسکتا ہے کہ کسی گرینڈ افطار ڈنر کااعلان ہی نہ کردیں۔

الحمد اللہ میں کورٹ میں پوری دیانتداری اور ثابت قدمی سے اپنی برادری کا مسئلہ تن تنہااٹھا رہا ہوں اور جلد انشاء اللہ ہمیں عدالت سے انصاف بھی ملے گا لیکن میں یہ سوچتا ہوں کہ ان ابن الوقتوں کا انجام کیاہوگا؟ ہلاکو نے غداروں کو قالینوں میں لپیٹ کر انجام تک پہنچایا تھا۔ ہماری تو قالینوں والی اوقات ہی نہیں ہے اس لیے مجھے اپنے پروردگار سے پوری امید ہے کہ وہ ان کو ان کی اوقات کے مطابق انجام تک پہنچائے گا اوریقیناؐ وہ انجام انتہائی عبرتناک ہوگا۔(عمیرعلی انجم)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں