تحریر: ناصر جمال
یہاں تو رہبری ایک داشتہ ہے
تم اُس سے!!! پارسائی مانگتے ہو
ستم یہ ہے تم اپنی اجرتیں بھی
اُسے دے کر دُہائی مانگتے ہو
(سجاد لاکھاؔ)
کبھی اس طرح سے مسلسل، ایک ہی شاعر کا کلام کم ہی لکھتا ہوں۔ سجاد لاکھاؔ صرف شاعر ہی نہیں، صحافی بھی ہیں۔ بے روزگاری نامی عفریت، بلا اور ’’جن‘‘ سے، کئی ماہ سے نبرد آزما ہیں۔ مگر حوصلہ نہیں ہارا۔ ان کے اشعار سے جھلکتا درد، حقائق، مشاہدہ اور تجربات، الفاظ کو دو آتشہ بنا رہے ہیں۔ اکثریتی اشعار، اُن کے تازہ کلام پر مبنی ہیں۔ ادبی کارزار میں، صحافتی کربلا کی طرح، بہت مخالفتیں ہوتی ہیں۔ پیغام بھیجا کہ مجھے اتنا زیادہ ’’کوٹ‘‘ نہ کریں۔ لوگ آپ کے مخالف ہوجائیں گے۔
ساتھ ہی شعر بھیجا کہ
بے کار میں اُس شخص نے الزام تراشے
میں صاحب کردار تو پہلے بھی نہیں تھا
استاد محترم سید تنویرعباس نقوی کی بہن اور ہماری آپی، نوشین نقوی، جنہیں وہ بہن نہیں، اپنا بھائی کہا کرتے تھے۔ میرے کالم کو کوٹیگ کرکے انہوں نے عجیب تبصرہ لکھا کہ ’’بس کردے، ناصر جمال۔۔۔ سچ کسی سانپ کی طرح، اپنے بولنے والے کو کھا جاتا ہے۔۔۔ پیشہ وروں نے صحافت کو بیچ کھایا ہے۔ پھر بھی تم جیسے کچھ سر پھرے، صحافت کی عزت بچانے کو پھرتے ہیں۔ صحافت کے نامور انقلابی اب وہی ہیں۔ جو فوراً کچھ دو، کچھ لو، پر مان جاتے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے۔ مُک مکا کرلو۔‘‘
میں نے انھیں جواب میں پروین شاکر کا شعر لکھ بھیجا۔
میرا ذکر پڑھنے والے میرا راستہ نہ چُن لیں
سرِ ورق یہ بھی لکھنا! مجھے مات ہوگئی تھی
مولا علیؑ یاد آئے، فرمایا،
’’سچ راستے پر چلنے کی سب سے کڑی سزا یہ ہے کہ انسان تنہا رہ جاتا ہے۔‘‘ ویسے منیر نیازی مرحوم نے اپنی مشہور زمانہ پنجابی کی ایک مصرعے کی نظم
’’وقت توں اگے لگن دی سزا‘‘
میں کہا تھا کہ
بندہ کلا رہ جاندا اے
میں نوشین نقوی کو کیا بتاتا ،کہ کرکٹ سے لیکر پیشہ ورانہ زندگی۔ حتیٰ کہ بھائی بندی اور رشتہ داری کی دنیا میں، یہ تو کئی بار بھگت چکے ہیں۔ میرے بھائیوں جیسے دوست اور بزرگوار، ’’بابو‘‘ نے ایک روز اپنے عزیز ازجاں دوست کو کہا کہ’’رائو صاحب‘‘ 35سالہ کیریئر میں کسی نے کوئی آفر ہی نہیں لگائی۔ جائو۔۔۔ مجھے بدنام کردو۔ کہو کہ ’’جسے تم لوگ ایماندار گردانتے ہو۔ وہ تو، بڑا ہی ’’کرپٹ‘‘ ہے۔ جعلی ایماندار ہے۔‘‘ رائو صاحب، دو تین روز کے بعد، آئے پہلے منہ لٹکائے بیٹھے رہے۔ پھر اچانک قہقہہ لگایا۔ اور کہا کہ آپ کے 35سال کے مسلسل کرتوتوں اور ’’لچھنوں‘‘ کے بعد، کوئی اس ’’سودے‘‘ کو لینے کو تیار ہی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمیں آپ نے بے وقوف سمجھ رکھا ہے،جائیں۔۔۔ کسی اور کو بے وقوف بنائیں۔ ‘‘ اس پر ’’بابو‘‘ نے کہا کہ یار کسی نے 35سال میں کچھ آفر ہی نہیں کیا۔ آفر تو کرکے دیکھو۔ شاید آفر قبول کرہی لوں۔ میری چوہدری شجاعت سے پہلی ملاقات، عطیہ عنایت اللہ نے کروائی تھی۔ تعارف کروا کر کہا کہ ’’کیا آپ انھیں جانتے ہیں۔‘‘ زیرک چوہدری نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’ہاں جانتا ہوں۔ اس نے کبھی ہمارے ساتھ رعایت نہیں کی۔
قارئین۔۔آپ قطعاً متاثر نہ ہوں۔ یہ زندگی بہت مشکل ہے۔ انسان خطا کا پُتلا ہے۔ مگر اسے بدنیتی کا پُتلا نہیں ہونا چاہئے۔ غلطیوں کی ہمیشہ گنجائش ہوتی ہے۔ بدنیتی اور منافقت کی نہیں۔ مجبوری، دھوکے کی قطعاً دلیل نہیں ہوسکتی۔ حکمت اور منافقت قطعی طور پر دو مختلف چیزیں ہیں۔گزشتہ کالم پر دو نیم مزاحمتی، تبصرے موصول ہوئے۔ ایک صحافی دوست نے ذاتی واٹس ایپ کرکے، اپنی ڈیجیٹل میڈیا کی رائے کی نفی کردی۔ اپنے دکھ، تکالیف بیان کیئے۔ ڈٹے رہنے کا کہا۔ جبکہ ایک دوست نے تحریر سے اختلاف کے باوجود، اچھی نثر کہہ کر تبصرہ کیا۔ جس کے جواب میں، میں نے کہا کہ اگلی قسط بھی آرہی ہے۔
عاطف شیرازی کو میرے کالم’’نوحے‘‘ سے آگے، ’’زنجیر زنی‘‘ میں تبدیل ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ بزرگ وار احسن راجہ کہتے ہیں۔ ’’تمہیں ہے حکم ازاں‘‘، بزرگ وار ظفر جتوئی، خان پور سے زیادہ جذباتی ہوئے۔ انہوں نے کوئی تین سو لوگوں کو کالم وائرل کردیا۔ برادرم شہزاد فاروقی نے ہنستے ہوئے کہا کہ عباس اطہر صاحب کا وہ تاریخی انٹرویو میں نے ہی کیا تھا کہ ’’صحافت مشن نہیں پروفیشن ہی ہے۔‘‘ جس پر میں نے انھیں کہا کہ ’’یہ بات آپ پچیس سال پہلے بھی تو کرسکتے تھے۔ اتنی مشقت تو نہ کرنا پڑتی۔‘‘ ساتھ ہی کہا کہ ’’تمہارا کالم تین مختلف دوست بھجوا چکے ہیں۔ ‘‘ برا درم سید مجتبیٰ رضوان نے فوری طور پر صدقہ کا مشورہ دیا۔ خالد مجید سمیت کتنے ہی دوستوں کے پیغامات آئے۔ ایک اور خوشی تھی، کہ لیڈر جاوید چوہدری جی۔ این۔ این۔ کراچی نے فیس بُک پر کالم شیئر کیا۔ اُس سے دُکھ درد کا ایک عجیب تعلق ہے۔ اس بار ’’سرکاری صحافتی‘‘ خرچ پر اسلام آباد آیا تو، ملا بھی نہیں۔ سہیل ظفر ہوتے تو اُسے ’’حرام الدہر‘‘ کی نستعلیق گالی سے ضرور نوازتے۔
میں نے کبھی، ملک آصف حیات اور خورشید شاہ کو اختیار اور اقتدار کے دنوں میں کہا تھا کہ ’’صحافت کا آنیوالا دور تباہ کُن ہوگا۔ میڈیا سیٹھ اس شعبے کو برباد کردیں گے۔ پیرا شوٹر اینکرز اور تجزیہ کار، صحافت اور صحافیوں کے لئے بارودی سرنگوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہونگے۔ اسٹیبلشمنٹ، ہاں کنٹرول کو زیادہ مضبوط کرے گی۔ تاکہ مرضی کے نتائج بذریعہ پروپیگنڈہ حاصل ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’اس پر کیا، کیا جائے۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’صحافت اور صحافی‘‘ کو تحفظ دینا ہے۔ بولے کس طرح۔ میں نے کہا کہ حکومتوں کے اشارے پر دس،بیس، ارب روپے، ادھر سے اُدھر ہونا کونسا مسئلہ ہے۔ آپ صحافیوں کو آزادانہ طور پر گروپس کی شکل میں سافٹ قرضہ دیں۔ اُردو، انگلش، مقامی زبانوں، بطور خاص، سندھ میں دو تین میڈیا ہائوس، بمعہ بورڈ آف گورنر کھڑے کردیں۔ دس سال کی تنخواہیں، بمعہ سالانہ اضافہ الگ سے، اکائونٹ سیل کردیں۔ کوئی چھیڑ نہ سکے۔ پروفیشنل اور اچھی شہرت کے صحافیوں کو پالیسی بورڈ میں شامل کریں۔ سیٹھوں کی مارکیٹ سے ’’مناپلی‘‘ ختم ہوجائے گی۔ ایجنڈے سیٹ نہیں ہوسکیں گے۔ آپ صحافیوں سے کسی رعایت کی توقع نہیں رکھیے گا۔ مگر وہ آپ سے زیادتی نہیں کریں گے۔ اور نہ ہی ہونے دیں گے۔ ان کا آزاد قلم،ایجنڈوں، ڈنڈوں، کو ادھیڑ کررکھ دے گا۔ بلیک میلنگ کے وہ بخیے اڑا کر رکھ دیں گے۔ ’’ذاتیات‘‘ صحافت سے نکل جائے گی۔ ظاہر ہے، یہ مشورہ کس نے ماننا تھا۔
دوسرا میں نے انھیں یہ بھی کہا تھا کہ ’’میڈیا‘‘کو اشتہارات کے خون سے نکال کر، وہ میڈیا کے آلات، کاغذ، کلرز، کیمرے، سیٹلائٹ وغیرہ کو اتنا سستا کردیں کہ پروفیشنل اپنی پروڈکٹ کو بآسانی تیار کرلیں۔ آگے، مارکیٹ بننا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جس کے پاس معیار ہوگا۔ وہ دوسروں کو گرالے گا۔
صحافی اور میڈیا ورکروں کی تنخواہوں کا تحفظ، ہائرنگ، فائرنگ کا میکنزم زیادہ مضبوط ہونا چاہئے۔ اس پر ایکٹ آف پارلیمنٹ ہو۔ ہائرنگ پر دواضافی تنخواہیں دیں۔ جو کہ آسان اقساط پر کاٹیں۔فائرنگ پر چار تنخواہیں دیں۔ اگر وہ خود استعفیٰ دے تو، ایک تنخواہ کا حق دار ہو۔ جو کہ ایک ماہ کم از کم نوٹس ہو۔ ’’ہائرنگ اور فائرنگ‘‘ زیادہ کوالٹی والی ہوجائے گی۔ ہر ایرے، غیرے، اور غیر صحافیوں، نان پروفیشنل کا راستہ اس شعبے میں خودبخود رکنا شروع ہوجائے گا۔ ایڈیٹر کا ادارہ بحال ہونا ضروری ہے۔ پالیسی، پروفیشنل صحافیوں کے تابع ہونی چاہئے۔
صحافتی تنظیموں پر مکمل پابندی ہونی چاہئے۔ صحافی اپنا کام کریں۔ جو کہ ان کی کُور جاب ہے۔ وہ کسی سیاسی جماعت کاکیوں ٹول یا حصہ ہوں۔ پریس کلبز کو پریس کلبز رہنے دیں۔ یہ پلیٹ فارم زیادہ مضبوط کریں۔ یہاں ہر کسی کی آواز بلند ہونے کا انتظام ہونا چاہئے۔ یہاں جلسے نہ ہوں۔ پریس کانفرنس اور سیمینار ضرور ہوں۔ اور صحافت کی صلاحتیں نکھارنے کا بھرپور عمل یہیں سے ہونا چاہئے۔
بدقسمتی سے پریس کلبز، روٹی کلب اور پراپرٹی دفاتر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ رہائش کے مسائل کسی اور طرح سے بھی حل ہوسکتے ہیں۔ جبکہ پریس کلبز کی حکومتی گرانٹ پر مکمل طور پر پابندی ہونی چاہئے۔ پریس کلب کے ممبر کی ایک ہزار روپے ’’ماہانہ فیس‘‘ لازمی کی جائے۔ میں دیکھتا ہوں کہ کیسے یہاں جعلی لیڈر شپ قابض ہوتی ہے۔ جو سال میں بارہ ہزار دے گا۔ وہ پھر حساب بھی مانگے گا۔ سہولتیں بھی دیکھے گا۔ آپ نے اپنے مظلوم دوستوں کی مدد کرنی ہے تو، جی۔ ایم جمالی فنڈز کے آئیڈیے پر، زیادہ بہتر اپنی مدد آپ کے تحت، فنڈ قائم کیا جاسکتا ہے۔ کمیونٹی اپنے لوگوں کی خود مدد کرکے۔ کچھ تو حمیت، خُو، خوداری کی طرف آئیں۔ بہت ہوچکا۔ ہمارے صحافی کیوں تہیہ نہیں کرتے کہ ’’انھیں کسی مرکزی، صوبائی حکومت، اداروں کی گرانٹ نہیں چاہئے۔‘‘ اگر یہ سب کچھ آج کے دور میں بھی آپ نہیں کرسکتے تو، ان پریس کلبز کو پھر بند ہی کردیں۔ کہیں پر تو، اپنے پائوں پر، اپنے قد کاٹھ کے ساتھ کھڑے ہوں۔ آج درجنوں کی تعداد میں، شہر کے اہم کلبز کے صحافی، ممبر ہیں۔ وہاں پانچ ہزار روپے صرف ’’لازمی فیس‘‘ ہر ماہ دیتے ہیں۔ پھر اپنی طاقت کے ممبے کو کیوں نہیں دے سکتے۔ بہت ہوچکا، کہیں سے تو، واپسی کرو۔ کہیں پر تو، حکومتوں کی غلامی کرنا چھوڑ۔ صحافیوں کو کرگس نہ بنائو۔ کہیں تو ،خود کو پہچانو۔ اور کچھ نہیں تو، اس قلم کی لاج رکھو۔ وگرنہ اس پر’’برائے فروخت‘‘ کاٹیگ لگا کر، ہر پریس کلب پر پرچم بلند کردو۔ فہیم مغل کی لاشوں کو ایسے ہی اٹھاتے اور بیچتے رہو۔(ناصر جمال)۔۔