تحریر: شعیب مختار
یہ کہاوت نہیں یہ ایک تلخ حقیقت ضرور ہے جب کسی درخت کو کمزور کرنا ہو تو پہلے اس کی شاخوں کوکمزور کیا جا تاہے بعدازاں اس درخت کا خاتمہ کیا جاتا ہے بالکل ایسی صورتحال حالیہ دنوں پاکستان میں صحافت کی ضرور بن چکی ہے جہاں میڈیا کی باگ دوڑیں سنبھالنے کے لیے وفاقی حکومت پہلے میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کو ترجیح دیتی ہے جس کی مخالفت میں شدیدرد ِ عمل ملنے اور دال نہ گلنے پر معاملہ التوا کا شکار ہو جاتا ہے بعد ازاں جب ڈیڑھ سالہ کارکر دگی سوشل میڈیا پر کھل کر سامنے آ نے لگتی ہے تو پھر سوشل میڈیا بھی موجودہ حکومت کو منہ چڑاتا دکھائی دیتا ہے جسے خاموش کرانے کے لیے سوشل میڈیا ریگولیٹری قوانین بنانے پر زور آزمائی کی جا رہی ہے ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ 12 مارچ کو جنگ جیو کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمان کی گرفتاری عمل میں آ تی ہے جنہیں 34برس قبل خریدی گئی 54کینال اراضی کیس میں تمام تر شواہد فرہم کرنے کے باجود بھی نیب حکام کی جانب سے حراست میں لیا جاتا ہے اور 12روزہ ان کا جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا جاتا ہے حزب روایت بھونڈی چالیں چلتی حکمران جماعت کو سابق صدر آصف علی زرداری،سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنانے کے بعد میڈیا سے ماضی کے تمام تر انتقام لینے کی سوجھتی ہے جس کے پہلے مرحلے میں جنگ جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کی گرفتاری عمل میں آ تی ہے نہ جانے اب اگلی کس کی باری ہے اس سلسلے میں جہاں صحافتی تنظیموں کو یکجا ہو کر ان کی گرفتاری کی مذمت کرنے کی کی ضرورت تھی تو یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا دکھائی دیتا چند حلقوں کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کر کے جان چھڑا لی جاتی ہے جبکہ مختلف تنظیموں کے دھڑے ان کی گرفتاری پر احتجاج نہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور انہیں جبری برطرفیاں کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ہیں معاملے سے لا تعلقی کا اعلان کر لیتے ہیں جبکہ کچھ تنظیمیں اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتی ہیں لگ بھگ چھ روز گزر جانے کے باجود بھی کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ تے ہیں جس کی بنیادی وجہ صحافتی تنظیموں کی دھڑے بندی بتائی جاتی ہے۔
میں آ ج ان تنظیموں سے مخاطب ہوں جنہوں نے میر شکیل الرحمان کی گرفتاری سے لا تعلقی کا اعلان کر لیا ہے کہ یہ بات بالکل درست ہے کسی ادارے کے سربراہ کی گرفتاری اس کے تمام تر کارکنوں کے حقوق سلب کرنے کے مترادف ہے آ پ کے مالکان سے لاکھ گلے شکوے ہو سکتے ہیں لیکن وہاں کہ ملازمین سے ہرگز نہیں آ ج جس طرح پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے مالک کو حراست میں لیا گیا ہے کل حق اور سچ کی آواز دبانے کے لیے ان کے کارکنوں کو بھی ایسے ہی زدو کوب کیا جائے گا ایسے ہی من گھڑت کیسز بنائے جائیں گے کیونکہ موجودہ حکومت اس پیشے کو گھر کی لونڈی ضرور سمجھ بیٹھی ہے کبھی ان کے وزرا ء بھرے مجمعے میں کسی صحافی کو تھپڑ رسید دیتے ہیں تو کبھی کیبل آپریٹرز کوچینل کے نمبروں کو پیچھے کرنے کی ہدایات دی جاتی ہیں کبھی ریاست کے محافظ مالکان کی رہائی کے لیے ہونے والے پر امن احتجاج کی ویڈیو بنا کر ڈراتے ہیں تو کبھی وزیر طلاعات نجی چینل میں بیٹھ کر دیئے گئے اشتہارات کی دستاویز دیکر تفصیلات دینے لگتی ہیں میرا سوال بس اتنا ہے اگر جنگ جیو گروپ نے بر طرفیاں کیں ہیں تو کون سا ایسا اخبار یا چینل ہے جس نے برطرفیاں نہیں کیں ہیں یہاں تو اخباری صنعتیں تو کیا دیگر صنعتوں کے بھی پہییے جام ہو گئے ہیں کچھ دوست کہہ رہے ہیں میر شکیل کو ورکرز کی بد دعا لے ڈوبی سینکڑوں نوکریاں کھانے والے کی آخری جگہ یہی تھی میں ان کو اس بات کا احساس دلانا چاہتا ہوں شدید نقصان میں رہنے کے باجود بھی ورکرز کم کرنا شاید ادارے کی مجبوری ضرور ہوتی ہے لیکن کبھی بھی کسی ادرے کے مالک کی خواہش نہیں ہوتی کہ اس کے ادارے کی افرادی قواتیں کم ہوں اور یہ عمل اس سے لاکھ درجہ بہتر تھا کہ ملازمین کو تعینات رکھ کر اسٹیل مل کی پالیسی کی طرح تنخواہوں سے محروم رکھا جاتا اور اگر یہ بر طرفیاں صرف جیو گروپ سے ہوتی تو اسے تسلیم کیا جا سکتا ہے دراصل یہ برطرفیاں پاکستان کے تمام بڑے میڈیا گروپوں سے ہوئی ہیں وقت نیوز جیسے بڑے چینل نے حالات سے تنگ آ کر اپنا بوریا بستر لپیٹ لیا اور چینل آف ایئر کر دیا ہے صاف اور شفاف چلی تحریک انصاف چلی سرکار کا اگر کردار صاف ہوتا تو یقینی طور پر کوئی صحافی بے روزگار نہ ہوتا تو یہ تاثر غلط ہے کہ ا س چینل یا اخبار نے صرف اور صرف برطرفیاں کیں ہیں میری گزارش تمام تر پریس ریلیز جاری کرنے والی اور میر شکیل الرحمان کی گرفتاری سے لا علمی کا اظہار کرنے والی صحافتی تنظیموں سے ہے کہ خدارا وہ اس عمل سے باہر نکلیں اور ایک مشترکہ اتحاد قائم کرتے ہوئے فوری طور پر اقدامات اٹھائیں اور ملک گیر احتجاج کی کال دیں تاکہ حکومتی مافیا کے ہاتھوں یر غمال بنی صحافت کو آزاد کرایا جا سکے آ ج جنگ جیو کے سربراہ کی جبری گرفتاری تمام تر ملازمین کی گرفتاری کے برابر ہے کل یہ بھونڈی چال کہیں روایت نہ بن جا ئے اور تمام میڈیا کے مالکان کے ساتھ یہی رویہ اپنایا جائے اور ہم اپنی ناکامی کی لکیر پیٹ رہے ہوں آ ج جس طرح مالکان پر انگلی اٹھائی گئی ہے کل کو ایسے ہی صحافیوں کو بنا کسی جرم قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کیا جا ئے گا اب بھی وقت ہے اب بھی کچھ نہیں بگڑا جہاں میڈیا کی آزادی کے لیے لا تعداد قربانیاں دی گئیں ہیں وہاں آ ج اس آزادی کو قدغن لگنے سے روکنے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ بات سوچنے کی ضرور ہے کہ یہ ریاست مدینہ ہے جہاں اسپیکر خیبر پختونخواہ اسمبلی مشتاق غنی سر ِعام کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان مشکل ترین معاشی حالات سے گزر رہا ہے عوام دو کے بجائے ایک روٹی کھا کر گزارا کریں جہاں آ ٹا،چینی بحران پید ا کرنے والے بچ جاتے ہیں لیکن بحران پیدا کرنے والوں کی نشاندہی کرنے والے ملزم کہلاتے ہیں اگرحقیقت کو الفاظوں کے سانچے میں ڈھالنے والے ملزم کہلاتے ہیں تو میں اپنا جرم اقرار کرتا ہوں مجھے بھی گرفتار کرو۔(شعیب مختار)۔۔