تحریر: جبار چودھری۔۔
لاہور پریس کلب کا الیکشن آیا تو بہت سے معززین نے اپنی الیکشن کمپیئن کے لئیے رابطے کئیے اس میں انداز خالص سیاسی تھا۔ سارا سال پاس سے گزرنے پر سلام دعا بھی نا کرنے والے معززین الیکشن کے دنوں میں چائے ، کھانا اور جن کو سگریٹ کی لت لگی ہے ان کو کھلے دل سے ویلکم کرتے دکھائی دئیے
خاص طور پر نوجوان صحافیوں کو پروٹوکول دیا گیا ۔۔
اور اس میں ہمارے بہت سے نوجوان ساتھیوں کو جن کی ممبر شپ بھی نہیں تھی ان سے سوشل میڈیا پر مہم بھی چلوائی گئی اس لالی پاپ کے ساتھ کہ اس بار ہر صورت اسکرونٹی ہو گی اور ورکنگ نوجوان صحافیوں کو ممبر شپ دلوائی جائے گی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ انہیں لوگوں پر برسراقتدار صحافیوں نے پابندی لگا دی کہ وہ پریس کلب میں نہیں آ سکتے اگر ممبر شپ نہیں ہے
یہ تمہید اس لئیے باندھی کہ ایک اور تنظیم پی ایف یو جے نے گزشتہ دنوں ایک محفل اسلام آباد میں سجائی جہاں سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت حکمران اشرافیہ اور حامد میر سمیت کئی نامور اینکر بھی وہاں موجود تھے جس میں سوائے ماضی کے پھڈوں پر رونے دھونے کے کچھ بھی نہیں سامنے آیا کوئی اسٹیبلشمنٹ کو للکارتا نظر آیا کوئی خود کو بڑا صحافی لیڈر ثابت کرنے پر تلا رہا مگر نہیں ہوئی بات تو فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی کی نہیں ہوئی۔ وہ جو سارا دن کی مغز ماری اور جوتیاں گھسا کر بہترین خبریں اپنے ادارے کو فراہم کرتا ہے تاکہ اسکرین کو بھرا جا سکے وہ صحافی جو وقت پڑنے پر سیٹھ کے کام کے لئیے کبھی بیورو کریسی کے ترلے کر رہا ہوتا ہے کبھی پولیس کے ڈیپارٹمنٹ اور کبھی کسی اور شخصیت کے ترلے کر رہا ہوتا ہے سوائے دلال کے کچھ نہیں لگ رہا ہوتا۔ اس کے روزگار کے لئیے کچھ نہیں ہو رہا ان کو نکالنے رکھنے تنخواہ کے سٹرکچر پر کوئی بات نہیں ہوئی ۔
کئی اداروں میں سینکڑوں ایسے صحافی ہیں جو ایک مل میں کام کرنے والے سے بھی کم اجرت لے رہے ہیں مگر مجال ہے کہ کوئی شرم آئی ہو کسی بھی صحافی لیڈر کو کہ وہ ایسے بڑے فورمز پر فیلڈ کے صحافیوں کے لئیے بات کر سکے سیٹھ سے پوچھ سکے کسی ادارے کے کرتا دھرتا مافیا کے سامنے بھرپور احتجاج ہی کر سکے کہ کیوں نکالتے ہو بغیر وجہ کے بغیر کسی نوٹس کے نا میڈیکل نا فیول۔ بس گدھوں کی طرح کام۔۔۔۔
پی ایف یو جے تو لگتا ہے کہ ان سنئیر اینکر پرسن لاکھوں کروڑوں کمانے والت صحافیوں کی ہی تنظیم رہ گئی ہے پٹ سیاپا ڈال دیتے ہیں جب کسی صحافی کو کوئی حکومتی ادارہ ان کو ذرا بھی کچھ کہ دے۔۔پریس کلب ہو یا صحافی تنظیمیں سب ہی 75 سالوں میں میڈیا ورکرز کے حقوق دلوانے اور تنخواہوں سہولیات کے سٹرکچر کو بہتر کروانے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔(جبار چودھری)۔۔