تحریر: بادشاہ خان
دسمبر کا سرد مہینہ جس میں کراچی والے بھی سردی محسوس کرنے لگتے ہیں ،کراچی میں سرد موسم میں ملک کی چند اہم اداروں کے انتخابات کا وقت ہوجاتا ہے اور جسے مین اداروں کے ممبران سرد ماحول کو گرم کردیتے ہیں ، ہر سال کی طرح آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے علاوہ کرائم رپورٹر ایسوسی ایشن کے انتخابات ہوچکے ، کراچی پریس کلب اور تاجروں کی تنظیم ایف پی سی سی آئی کی انتخابی سرگرمیاں بھی ختم ہوگئیں۔۔ جمہوریت کی ایک الگ پہچان ہر ایک گروپ اور پینل اپنے ایجنڈے اور مقاصد کو بیان کررہا ہے ،عشائیے اور ظہرانے جاری ہیں ، ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے جمہوری انداز میں کوششیں جاری ہیں ،اچھا ہے ، بہت اچھا ہے ، راقم نے اس بار ان مہمات میں شرکت کی ،اور ان اداروں اور تنظیموں کے موقف اور مسائل کو بھی غور سے سنا ،تاجروں کے مسائل ، ثقافتی مسائل ، صحافیوں میں اچانک بے روزگاری اور بے یقینی کی کیفیت ،ہر ادارے کا ممبر اپنی تنظیم سے مدد چاہتا ہے ، کہ ان کے مسائل کم ہوں مگر مسائل ہیں کہ کم نہیں ہورہے،آج کالم لکھنے کا مقصد ان اداروں کے مسائل ضروریات کے بارے میں خود ان کے رہنما کیا کہتے ہیں اور ممبران کی کیا خواہش ہے اس پر ایک نظر ڈالنا ہے ۔۔
سیاسی بے یقینی کے اس صورت حال میں ان اداروں کا جمہوری انداز میں انتخابات کرانا ایک مثبت علامت ہے کہ ملک میں ایسے ادارے اور لوگ اب بھی موجود ہیں جو جمہوری انداز سے تبدیلی لانا چاہتے ہیں ، اور اپنے موقف کو دلائل سے بیان کرنا چاہتے ہیں ، خیر گذشتہ دنوں راقم نے ایف پی سی سی آئی کے بزنس مین پینل جس کے روح رواں میاں زاہد حسین ملک کے معروف بزنس مین ہیں ،ان کی جانب سے مقامی ہوٹل میں اپنے پینل کے اعزاز میں دعوت دی گئی، دعوت جس میں تاجروں کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا ،یہ ان کی انتخابی مہم کا حصہ بھی تھا ،ان کے علاوہ دیگر تاجرحضرات کے خیالات ، مسائل ،ضروریات بھی سننے کا موقع ملا ، چالیس ارب ڈالر کا سالانہ خسار ہ اور برآمدات میں کمی ،تاجروں کو سہولیات نہ فراہم کرنا ، جس کی وجہ سے تاجرایک جانب مایوس نظر آرہے تھے ۔ بدقسمتی سے ایف پی سی سی آئی گزشتہ چار سال سے غیر فعال ہے ایف پی سی سی آئی کے صدر کو ایک ملک نے ویزہ دینے سے انکار کر دیا،۔۔ایف پی سی سی آئی کے پروگرام سے فراغت کے بعد کراچی پریس کلب پہنچے ، جہاں روایت کے مطابق کراچی پریس کلب کے انتخابات کے لئے پینل کا اعلان ہوتا ہے ، صحافیوں کی کثیرتعداد موجود تھی ، انتخابات میں حصہ لینے والے دونوں پینل اور آزاد امیدوار ایک ہی چھت نجیب ٹیرس کے نیچے پہلو بہ پہلو موجود تھے ،ڈیموکرٹس اور پروگرسیو پینل سے تعلق رکھنے والے صحافی خاموشی سے ایک دوسرے پینل کی کاروائی دیکھتے رہے ، سب سے پہلے ڈیموکرٹس پینل کے دو ہزار انیس کے لئے پینل کا اعلان کراچی پریس کلب کے سابق سیکرٹری اور سینئر صحافی مقصود یوسفی نے کیا ،جس کے مطابق صدارت کے لئے امتیاز فاران اور سیکرٹری کے لئے ارمان صابر امیدوار بن کر سامنے آئے، جس پر جمہوری انداز میں نعرے بازی بھی کی گئی ، تھوڑی دیر بعد اسی مقام پر پہلو میں موجود پروگریسو پینل سے کراچی پریس کلب کی صدارت کے لئے احمد خان ملک اور سیکرٹری کے لئے شاہد جتوئی کا نام پیش کیا گیا ،اور ایک بار پھر اپنے امیدواروں کے حق میں نعرے بازی کی گئی اور دوسرا پینل خاموشی سے یہ کاروائی دیکھتا رہا،یہ ہے جمہوریت کا حسن۔۔
جب تک یہ کالم شائع ہوگا ان اداروں کے انتخابات بھی ہوچکے ہونگے، لیکن پیغام ایک ہی ہے کہ اپنے موقف کو بیان کریں اور اچھے انداز میں دلائل کے ساتھ، مخالفین پر ذاتی حملے نہ کریں،تنقید پر غور کریں، اپنی اصلاح کی کوشش کریں ، کیونکہ آپ نے لیڈرشپ کرنی ہے ،اسی سے مثبت چہرا ابھر کر سامنے آئے گا ، جنوری میں نئی امید کے ساتھ نئی قیادت کیا ان اداروں میں تبدیلیاں لائے گئی ،؟ بہت بڑا سوال ہے ، مگر فنکار، صحافی اور تاجر اب بھی حکومت سے زیادہ اپنی ان تنظیموں اور اداروں سے توقعات رکھتے ہیں ۔۔(بادشاہ خان)