تحریر: مسٹراینونی مس
میڈیا ہاوسز میں ملازمتوں کے قحط اور ورکرز کی مسلسل جبری برطرفیوں کے بعد ہمیں جس صورت حال کا سامنا ہے اس میں سب سے خطرناک بات یہ ہوئی کہ عام کارکن اب صحافی تنظیموں اور لیڈرز پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔ یہاں بات صرف اعتبار کی نہیں بلکہ سرعام ان لیڈران کرام کو گالیاں بکی جاتی ہیں اور انہیں مالکان کا ٹاوٹ کہا جاتا ہے ۔ لاہور میں دنیا نیوز کے باہر احتجاج انتہائی مضبوط انداز میں شروع ہوا تھا لیکن اس کا انجام اتنا ہی بھیانک ہوا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صحافی لیڈرز اپنی رضاکار ٹیم تیار کرتے اور ورکرز کی ڈیوٹی لگاتے کہ وہ اپنے ادارے میں ملازمت سے پہلے یا بعد میں آٹھ گھنٹے کی شفٹ دھرنے میں بھی لگائیں اور جیسا کہ اعلان کیا گیا تھا کہ مکمل لاک ڈاؤن ہو گا ، اس پر عمل کرتے ہوئے ادارے میں کسی کو بھی داخل نہ ہونے دیتے ۔ مالکان اندر موجود ایک شفٹ سے دو شفٹ کا کام تو لے سکتے تھے لیکن تیسری شفٹ شروع ہونے تک اثرات نظر آ جانے تھے ۔ لیڈر اس احتجاج کو اسپانسر کراتے یا احتجاج فنڈز اکٹھا کیا جاتا اور اس سے دھرنے میں موجود رضاکاروں کے کھانے اور رات بسر کرنے کا اہتمام کیا جاتا تو شاید حالات مختلف ہوتے لیکن ہوا یہ کہ ایک لیڈر نے اچانک اٹھ کر اعلان کر دیا کہ احتجاج ختم ہوا اب اگلا لائحہ عمل پریس کلب جا کر تیار ہو گا ۔ اس احتجاج سے نہ تو کوئی ورکر بحال ہوا اور نہ ادارے کو کوئی فرق پڑا البتہ یہ بات شدت سے گردش کرنے لگی کہ لیڈران کرام نے شاید کوئی ڈیل کر لی ۔ اس خیال کو اس وقت مزید تقویت ملی جب لاہور پریس کلب کی پریس ریلیز کے مطابق طے شدہ اگلا احتجاج موخر کر دیا گیا جو آج تک نہیں ہو سکا ۔ اس کے بعد تو جیسے طے شدہ پلان کے مطابق مختلف صحافتی گروپوں کے جیالے اور متوالے ایک دوسرے پر الزامات لگانے لگے اور پھر عملی طور پر صحافتی اتحاد خود صحافی رہنماؤں کی کوششوں سے ختم ہو گیا۔ اس کا نقصان ورکرز کو ہوا اور صحافی رہنماؤں پر عدم اعتماد میں مزید اضافہ ہوا ۔
اب ہمیں انہی رہنماؤں کی وجہ سے ایک اور صورت حال کا سامنا ہے جس کے لیے فی الوقت کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ۔ اسلام آباد پریس کلب کی اسکروٹنی لسٹ میں کئی معروف صحافی بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر نہ صرف اس لسٹ کا مذاق اڑایا جا رہا ہے بلکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ دو گروپوں کی جانب سے ایک دوسرے کے بندے نکالنے کی جنگ کا نتیجہ ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پریس کلبس کے آئین میں پرنٹ میڈیا کے صحافی اور غیر صحافی اراکین کی تعریف موجود ہے اور پریس کلبس پرنٹ میڈیا کے نیوز ایڈیٹر ، ایڈیٹوریل ، میگزین سب ایڈیٹرز ، رپورٹرز اور کیمرہ مین کو صحافی قرار دے کر ممبر شپ دیتے ہیں لیکن تاحال یہ طے نہیں ہو سکا کہ الیکٹرانک میڈیا سے کن لوگوں کو صحافی تسلیم کرتے ہوئے ممبرشپ دی جائے اور کن شعبوں میں کام کرنے والوں کو غیر صحافی اراکین میں شمار کیا جائے ، مثال کے طور پر نیوز کیمرہ مین کو صحافی قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ طے نہیں کہ انٹرٹینمنٹ کے کیمرہ مین کو کس کیٹگری میں شامل کیا جائے ، اسی طرح رپورٹر سے اینکر بننے والے کو صحافی سمجھا جاتا ہے تو کیا دیگر شعبوں سے آ کر اینکر بننے والوں کو بھی ممبرشپ دی جائے یا نہیں جیسا کہ عامر لیاقت، مبشرلقمان،سہیل احمد(عزیزی) ، ڈاکٹر شاہد مسعود وغیرہ کے بارے میں کیا وہی اصول لاگو ہوں گے جو حامد میر ، سہیل وڑائچ اور رؤف کلاسرا کے حوالے سے لاگو ہوتے ہیں ؟ اسی طرح ماضی میں پروڈیوسرز کو انتہائی مباحثے کے بعد ممبر شپ دے دی گئی تھی لیکن یہ طے نہیں ہوا کہ کیا نیوز کے شعبے کے پروڈیوسر کو ہی صحافی مانا جائے یا اسی ادارے کے ڈرامہ پروڈیوسر کو بھی ممبر شپ دی جائے گی ۔ دو تین برس قبل لاہور پریس کلب میں اسی سقم کی وجہ سے اپوزیشن کے اعتراض پر پروڈیوسرز کی ممبرشپ فریز کی گئی جس پر پروڈیوسرز نے شدید احتجاج بھی کیا تھا لیکن آئین میں تاحال کوئی ترمیم نہیں کی گئی یعنی مستقبل میں بھی اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر اداروں میں کیمرہ مین سے لے کر پروڈیوسرز تک کی ذمہ داریاں تبدیل ہو جاتی ہیں اور وہ ایک کیٹیگری سے دوسری میں بھیج دیے جاتے ہیں تو ایک کیٹگری میں ممبرشپ کا اہل قرار پانے والا اگر دوسری کیٹیگری میں بھیج دیا جائےتو کیا لائحہ عمل ہو گا؟ ۔ یہ فیصلے سنیئر قیادت کو مل بیٹھ کر کرنا تھا جس میں وہ سب ناکام رہے ہیں ۔ پریس کلبس کے آئین میں ایسے بڑے سقم تاحال پائے جاتے ہیں ۔ ضرورت تو یہ تھی کہ سینئر قیادت ان ابہام کو دور کرتی لیکن ایک ایسے وقت میں اسکروٹنی اسکروٹنی کھیلا جا رہا ہے جب آدھے سے زیادہ ورکرز اور ممبرز بے روزگار ہیں یا مجبورا گھر چلانے کے لیے میڈیا کی بجائے کہیں اور وقتی ملازمت کرنے پر مجبور ہیں ۔ میڈیا ہاوسز میں ملازمت کے دروازے بند ہیں اور مسلسل ورکرز کو نکالا جا رہا ہے ۔ ان حالات میں اسکروٹنی کا طریقہ کار کیا ہے یہ کسی کو سمجھ نہیں آ رہی ۔ اگر پریس کلب اداروں میں لسٹیں بھیج رہا ہے تو یقینا ادارے ایسے لوگوں کو اپنا ملازم ظاہر نہیں کریں گے جنہیں نکالا جا چکا ہے ۔ لاہور میں تو وقت نیوز مکمل طور پر بند ہو چکا ہے ، کئی علاقوں میں بیوورو آفسز مکمل طور پر بند ہیں اور ان میں کام کرنے والے ورکرز اب یا تو گھر بیٹھے ہیں یا اپنا ہنر میڈیا ہاوسز کی بجائے کہیں اور بیچ رہے ہیں ۔ ان لمحات میں پریس کلب سمیت صحافتی تنظیمیں کسی ایک ورکر کو بھی بحال کروانے میں تو ناکام رہی ہیں لیکن اسکروٹنی کے نام پر ان سے پریس کلب کا حوالہ بھی چھین لینے کے درپے ہیں ۔ ہم ایسے صحافتی رہنماؤں کو بھی جانتے ہیں جو ان حالات میں بھی ورکرز کو یا تو بلیک میل کر رہے ہیں یا انہیں ملازمتوں سے نکلوانے کی سازشوں کے سرخیل بنے ہوئے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تاحال سینئر صحافی رہنما بھاری معاوضوں پر تعینات ہیں اور کسی ایک کو بھی نہیں برطرف کیا گیا ۔ ماسوائے ایک جوکے یوجے کے سیکرٹری ہیں۔۔برطرفی کی برق صرف کارکنوں پر گری ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو جلد ورکرز اپنے فیصلے خود کرنے لگیں گے اور ان نام نہاد لیڈروں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے۔اس کے بعد کیا ہو گا اس سے شاید ورکرز کو کوئی فرق نہ پڑے لیکن میڈیا ہائوسز کے پے رول پر کام کرنے والےان صحافتی رہنمائوں کی بھاری تنخواہیں اور “پکی نوکری” ضرور ختم ہو جائے گی جن کا اصل کام ہی ورکرز کو ایک حد سے آگے بڑھنے سے روکے رکھنا ہے ۔ اور یقین کیجئے وہ وقت جلد آیا چاہتا ہے جب ان نام نہاد رہنمائوں کو دوبارہ ورکر بننا پڑے گا اور ورکرز کی طاقت ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے اس ساری دولت کا حساب بھی دینا پڑے گا جو ورکرز کو بےروزگار کرنے کے معاوضہ کے طور پر حاصل کی جاتی رہی ہے۔۔(مسٹر اینونی مس)۔۔۔
(زیرنظر تحریر ہمارے ایک محترم صحافی دوست کے بے باک قلم کا شاخسانہ ہے، موصوف اب اسی نام سے ہماری ویب کے لئے مستقل لکھا کریں گے، جس میں صحافتی تنظیموں، صحافی لیڈران اورپریس کلبوں کی سیاست کے ساتھ ساتھ میڈیا سے متعلق اہم ایشوز پر کھل کر بات کی جائے گی۔۔ عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا مسٹر اینونی مس کی تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔۔