تحریر: سہیل بلخی۔۔
کسی اخبار میں یہ خبر نہیں لگی کہ صحافت کے شعبے میں کام کرنے والے طبقے پر بہت کٹھن وقت گذر رہا ہے۔ لوگ بے روزگار ہورہے ہیں اور جو نہیں ہوئے انھیں چھ مہینوں سے تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں۔۔۔نہ پنشن، نہ اولڈ ایج ایمپلائز بینیفٹ نہ کوئ اور سہولت اور اکثر لوگوں کو بدصورت طریقے سے کہہ دیا جاتا ہے کہ کل سے مت آنا-
پرنٹ میڈیا کا ختم ہونا اور ٹی وی چینلز کا سکڑ کر یوٹیوب کے پروڈکشن ہاوس تک محدود ہوجانا یقینی ہے مگر ہماری صحافی برادری کو شائد اس پر یقین نہ تھا ۔۔اسمارٹ صحافیوں نے متبادل راستوں پر کام شروع کردیا ہے مگر اکثریت کو کسی اور شعبے میں جانے کے لیئے ٹریننگ ،رہنمائ اور مشاورت کی ضرورت ہوگی مگر کسی پریس کلب میں اسکا کوئ اہتمام نظر نہیں آیا۔۔
میرا خیال ہے کہ کمزور اور چھوٹے صحافیوں کو سب سے زیادہ پریشانیوں کا سامنا ہوگا اور فوری طور پر ایک ہنگامی فنڈ اور الگ باڈی بناکر صحافتی تنظیمیں اپنے بھائیوں کی کچھ مدد کرسکتی ہیں۔
بے روزگار صحافیوں کا پول بناکر انھیں تربیت کے ساتھ مختلف اداروں میں بھی کھپایا جاسکتا ہے اور بدلتے زمانے کی ٹیکنالوجیز اور نئے میدانوں کی طرف بڑھنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔۔۔
یہ لوگ اچھے سوشل میڈیا مینیجر، یوٹیوبر، کونٹینٹ ڈیولپرز، کاپی رائٹر، سرچ انجن اپٹمائزر، برانڈ ڈیزائنر اور وائس اوور ایکسپرٹ اور اسٹوری ٹیلر بن سکتے ہیں ۔۔۔
اگر انکی تنظیم کوئ باڈی بناتی ہے تو ریسرچ کرکے اس فہرست کو اور وسیع کیا جاسکتا ہے۔۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں یہ شعبہ ختم ہوا تو کون کون سے نئے ملتے جلتے پیشے وجود میں آئے اور دنیا بھر میں اس حوالے سے کیا ریسرچ ہے جنہیں ہم اپنے ہاں اپنے پیارے لوگوں کے لیئے استعمال کرسکتے ہیں ۔۔ اور کوئ لائن بدلنا چاہیے تو اسکی بھی بھرپور مدد کرنی چاہییے جہاں دنیا میں ایک سو پیشے ختم ہورہے ہیں وہیں ایسے نئے پیشے بھی وجود میں آرہے ہیں جن کے بارے میں ماھرین کچھ کے بارے میں بتا رہے ہیں مگر اکثر نئے پیشوں کے بارے میں ابھی وہ بھی وضاحت سے نہیں کہہ سکتے۔۔ (سہیل بلخی)