سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق ازخود نوٹس پر ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی ) فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے ) ثنا اللہ عباسی سے صحافیوں کے مقدمات سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز الحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین پر مشتمل تین رکنی بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کئے جانے سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت کی۔سماعت دوران ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی ) فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے ) ثنا اللہ عباسی اور چیئرمین پیمرا سلیم بیگ عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے جبکہ انسپکٹر جنرل(آئی جی ) اسلام آباد پولیس قاضی جمیل الرحمان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے والے پہلے کارروائی کرتے ہیں بعد میں قانونی طریقہ کاردیکھتے ہیں اور کبھی کسی کو پکڑ کر بٹھا لیتے ہیں اور کبھی کسی کو چھوڑ دیتے ہیں۔تحقیقاتی ادارے کو واضح طریقہ کار کے تحت ایف آئی آر درج کرنی چاہئے۔ڈ ی جی ایف آئی اے نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ آزادی صحافت پر یقین رکھتے ہیں لیکن ریگولیشن پیکا ایکٹ کے تحت کرتے ہیں، چار سال میں صحافیوں کے خلاف 27شکایات ملیں جن میں سے صرف چار شکایات کی انکوائری میں تبدیل ہوئیں اور مقدمات درج ہوئے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ڈی جی صاحب، پریس کی ریگولیشن پیکا ایکٹ کے تحت نہیں ہوتی ہے،آپ اپنی سوچ واضح کریں، صحافتی آزادی آرٹیکل 19کے تحت ہوتی ہے۔فاضل جج نے ثنا اللہ عباسی سے مکالمہ کیا کہ آپ ذاتی طور پر ہر ایک کیس کے ذمے دار ہیں۔جسٹس منیب اختر نے ڈی جی ایف آئی اے سے سوال کیا کہ بتائیں صحافت کی کیاتعریف ہے؟ ، اگر منیب اختر کیمر اپکڑ کر یوٹیوب چینل پر تنقید شروع کرلے تو کیا یہ صحافت ہوگی؟میں کسی کی نہیں اپنی مثال دے رہا ہوں۔جسٹس اعجاز الحسن نے سلیم بیگ سے استفسار کیا کہ کیا پیمرا نے صحافیوں یا چینلز کے خلاف کارروائیوں کے ایس اوپیز مرتب کئے؟پیمرا کو آئین میں کارروائی کا طریقہ کارنہیں دیا گیا اس کے لئے ایس اوپیز بتانا ضروری ہیں،سپریم کورٹ ملک کے اعلیٰ ادارے کے طور پر صحافتی آزادی کا تحفظ کرے گا،حدود ہر چیز کی مقرر ہیں،یہ واضح ہونا چاہئے کہ آپ کی حدود کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہوتی ہیں ۔جائزہ لیں گے کہ الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی آرٹیکل 19سے متصادم تو نہیں ہے، گائیڈ لائنز جاری کریں گے جس پر حکومت اورتمام ادارے عمل کریں گے۔جسٹس قاضی امین نے آئی جی اسلام آباد سے استفسارکیا کہ اسلام آباد میں ایک صحافی کو پیٹ میں گولی ماری گئی،اس واقعے کے ملزمان کے بارے میں اب تک کیا پیشرفت ہوئی؟جس پر آئی جی نے بتایا کہ اس کیس کی ابھی تفتیش ہورہی ہے،جسٹس قاضی امین نے کہاکہ بھول جائیں تفتیش کو، یہ آپ کی ناکامی ہے کہ اب بس تفتیش ہورہی ہے،دن دہاڑے ایک شخص کو گولی مار دی گئی اور آپ ملزمان نہیں پکڑ سکے۔آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے سی سی ٹی وی سے شکلیں ٹریس کرکے نادرا کو بھجوائیں لیکن شناخت نہیں ہو سکی جس پر جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کہ مینار پاکستان واقعے کے ملزم پکڑے جاسکتے تو صحافیوں کے کیوں نہیں؟ملزمان کا گرفتار نہ ہونا آئی جی صاحب آپ کی ناکامی ہے۔عدالت نے حکم دیا کہ ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد ایک سال میں صحافیوں پرہوئے مقدمات کی رپورٹ دیں جب کہ چیئرمین پیمرا سے بھی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔بعد ازاں عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔
