تحریر: احسان الحق
ایک بڑا صحافی بننامیرا خواب تھا ۔جیو تک پہنچنا میری منزل تھی۔۔۔اس خواب اور منزل کے حصول کے لئے مسلسل تین سال قربانیاں دیں۔۔بسوں میں خوار ہوکر دل وجان سے منزل اور خواب کو پانے کی کوشش کی۔۔۔کبھی کبھار جیب خالی ہونے پر پیدل بھی چلنا پڑا۔یہ جانتے ہوئے کہ اس فیلڈ میں اگر بندہ پیدا گیری کے راستے پر اتر آئے تو چند دنوں میں ہی اسکے حالات بہتر ہوسکتے ہیں لیکن اسکے باوجود میں نے حرام سے بچنے کی کوشش کی۔۔صرف اپنی محدود تنخواہ پر گزرا کرنے کی ٹھان لی۔۔جو کبھی وقت پر نہیں ملی۔۔۔لیکن اسکے باوجود کبھی دونمبر طریقے سے پیسہ نہیں کمایا۔۔دوسری طرف میرے گھر والوں نے ہمیشہ اسکی مخالفت کی۔۔انہوں نے ہمیشہ مجھ سے کہا کہ اس فیلڈ وہیں کامیاب ہوسکتا ہے جسکو کم سے کم 5 سالوں تک پیچھے اپنے گھر اور گھر والوں کی ٹینشن نہ ہو۔۔لیکن میں انکو آسرا دیتا رہا نہیں بہت جلد حالات بہتر ہونگے۔۔ان تین سالوں کے اندر جب جب بیوی نے پیسہ مانگا مجھے سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔۔کیونکہ میری تنخواہ اتنی محدود ہوتی تھی کہ میں پردیس میں اپنی ضروریات پوری نہیں کرسکتا تھا تو ان سے بچا کر میں بیوی کو کیا خاک پیسے بھیجتا۔۔۔پھر بھی دل وجان سے خواب اور منزل کے حصول میں لگا رہا۔جب جب چھٹی پر گھر گیا بیوی بچوں نے ضد کی کہ اس دفعہ ہمیں اکیلا چھوڑ کر مت جائیں۔۔ہمیں بھی اپنے ساتھ کراچی لے کر جائیں۔۔۔میں ہر بار انکو آسرا دیتا کہ انشاء اللہ اس دفعہ جاونگا تو کوئی نہ کوئی سیٹنگ بنالونگا۔۔۔تنخواہ بڑھ جائے گی تو آپ لوگوں کو بھی شفٹ کردونگا۔۔ہر بار بیوی بچوں اور گھر والوں کو روتا چھوڑ کر کراچی آتا اور اپنی منزل اور خواب کے حصول کی کوشش میں مگن ہوجاتا۔۔۔لیکن اس بار سوچا کہ کب تک اپنے خواب اور منزل کے حصول کے لئے بیوی بچوں اور گھر والوں کو جھوٹے آسرے دیتا رہوں۔۔کیونکہ فیلڈ میں رہ کر مجھے اندازہ ہوگیا ہے اس فیلڈ میں محنت کی کوئی قدر نہیں۔۔۔یہاں زرا سا لیٹ آنے پر آپکی گرفت تو ہوتی ہے لیکن اپنی ڈیوٹی ٹائمنگ سے زیادہ وقت دفتر کو دینے کے باوجود “سیٹھ مافیا ” آپکی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔۔اس فیلڈ میں کام میں زرا سی کوتاہی ہوجائے تو کام سے نکالنے کی دھکمیاں تو دی جاتی ہیں لیکن یہاں ورکر کی تنخواہ کئی مہینوں تک روکنے کے باوجود “سیٹھ مافیا”سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔۔اس فیلڈ میں کام کرنے والے کو اتنی اجرت نہیں دی جاتی جتنا وہ اپنا پسینہ بہاتا ہے۔۔۔ یہاں بس “سیٹھ مافیا”کا راج ہے جو چاہتے ہیں انکو روبوٹ جیسے انسان ملیں جن سے وہ اپنی مرضی کے تمام کام نکال لیں لیکن وہ آگے سے اپنے حقوق کے لئے کوئی سوال نہ کریں۔۔۔یہاں پرچی مافیا کا بھی راج ہے۔۔میں کئی ایسے نام نہاد صحافیوں کو بھی جانتا ہوں جنکو املا تک لکھنا نہیں آتا لیکن وہ بڑے بڑے اداروں میں بڑی تنخواہیں لے رہے ہیں۔۔۔۔یہاں واٹس ایپ مافیا کا بھی راج ہے۔۔۔جو ادروں میں بیٹھ کر واٹس ایپ سے کاپی پیسٹ کرکے اپنا دن نکال رہے ہیں۔۔وہ فیلڈ ہفتہ وصولی کے لئے ہی نکلتے ہیں اس مافیا کی وجہ سے ایک ورکنگ جرنلسٹ کی اب اس فیلڈ کوئی بھی اوقات نہیں۔۔۔یہاں پیدا گیر مافیا کا بھی راج ہے۔۔جو چھوٹی چھوٹی تنخواہوں میں چھوٹے اداروں میں کام کرنے پر راضی ہوجاتے ہیں۔۔۔اس مافیا وجہ سے بھی ایک ورکنگ جرنلسٹ پس جاتا ہے۔۔۔اس مافیا اپنا گزارا تو مختلف اداروں سے کی جانے والی ماہانہ و ہفتہ وار وصولیوں سے ہوجاتا ہے لیکن ایک ورکنگ جرنلسٹ بیچارہ گھٹ گھٹ کر کام کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔۔۔جب وہ اپنی تنخواہ کی بڑھوتری کی بات کرتا ہے تو آگے سے جواب ملتا ہے دیکھو بھائی فلاں بندہ بھی تو اتنی کم تنخواہ میں کام کررہا ہے۔۔۔۔۔اس فیلڈ سے مزید اس بار بھرا جب میں کراچی سے گاوں آرہا تھا۔۔۔پورے ایک سال بعد کراچی سے گاوں جارہا تھا۔۔۔ہمارے گاوں میں کراچی کو دوسرا دوبئی سمجھا جاتا ہے۔۔۔سب گھر والوں کی نظر تھی مجھ پر۔۔بہن سمجھ رہی تھی کہ بھائی پورے ایک سال بعد کراچی سے آرہا ہے تو میرے لئے کپڑے لائے گا۔۔۔بچے سوچ رہے تھے بابا کھلونے لائے گا۔۔۔بیوی بھی بڑے ارمانوں سے میرے آنے کے دن گن رہی تھی۔۔۔۔ادھر میری حالت یہ تھی کہ میں نے اپنے ادارے کے سیٹھ سے آنے سے تقریباً تین ہفتے پہلے کہا کہ سیٹھ صاحب مجھے فلاں تاریخ کو گاوں کے لئے نکلنا ہے تو برائے مہربانی میری حلال تنخواہ کا بندوبست اس تاریخ سے پہلے کرادیں۔۔سیٹھ نے بولا ٹھیک ہے ہوجائے گا۔۔۔میں دن گننے لگا۔۔۔جب دن قریب آئے تو سیٹھ صاحب نے کہا مزید دو دن دیجیے میں کچھ کرلونگا۔۔۔میں نے دو دن بھی دے دیئے۔۔۔دو دن بھی گزرے لیکن پھرسیٹھ نے کہا آپ 10 ہزار رکھ لیں اور اپنے جانےکا انتظام کری۔۔۔میں نے سیٹھ سے کہا کہ 10 ہزار اتنا لمبا سفر ممکن نہیں۔۔اس لئے میری پوری تنخواہ یعنی 15 ہزار کا انتظام کردیں تاکہ مجھے آسانی ہو۔۔سیٹھ نے کہا ٹھیک ہیں فکر مت کریں اس بار پکا انتظام ہوجائے گا۔۔۔سیٹھ کی بات پر ایک بار پھر یقین کرتے ہوئے میں نے تین دن بعد کا ٹکٹ لیا۔۔۔جانے والی رات کو سیٹھ نے دفتر بلایا۔رات کے قریباً9 بجے بس پر بہادر آباد جانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا۔۔۔کیونکہ وہاں کے لئے شاہ فیصل سے تین بسیں تبدیل کرنی پڑتی ہیں اس دن سی این جی بھی بند تھی۔۔خیر مشکل کی اس گھڑی میں اپنے ہمدرد بھائی اظفر کا کال کی۔۔ اور انکے ہمراہ دفتر پہنچا۔۔۔جب دفتر میں داخل ہوا تو دفتر میں کافی رش تھا۔۔۔سیٹھ صاحب اپنی سیٹ پر براجمان تھے۔۔ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد سیٹھ نے جیب سے چند نوٹ نکال کر تھما دیئے۔۔سیٹھ صاحب پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے دیئے گئے نوٹوں کی گنتی بھی مناسب نہیں سمجھی۔۔۔تمام ساتھیوں کو اللہ حافظ کہنے کے بعد باہر نکلے۔۔۔باہر آنے بعد اپنی ضرورتوں کے حساب ے نوٹ الگ کرنے کے لئے جب نوٹ نکال کر حساب لگایا تو سیٹھ صاحب نےمیری جانب سے تین ہفتے مسلسل منتوں اور 4 دن ایکسٹرا مہلت لینے کے باجود میری پوری تنخواہ پوری نہیں دی بلکہ ٹوٹل 10 ہزار روپے تھمائے۔۔۔اس وقت مجھے اپنی اوقات کا اندازہ ہوا اور آنکھوں سے آنسو بے اختیار روانہ ہوئے۔۔۔بھائی اظفر کے ساتھ انکے دفتر جاتے ہوئے پورے راستے میں نہ چاہتے ہوئے بھی روتا رہا۔۔۔دفتر پہنچ کر میرے رفیق میرے ہمدرد بھائی اظفر نے میرے درد کو سمجھتے فوری طور پر بلال بھائی کو فون کیا۔۔۔انہوں نے سمیر قریشی بھائی سے اظفر کے نام کا قرضہ لیا۔۔۔سیٹھ صاحب کی وجہ سے مجھے اپنے گاوں جانے کا پروگرام مزید ایک دن لیٹ کرنا پڑا۔جسکے لئے مجھے تین سو روپے کا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔۔۔۔اگلے دن بھائی بلال نے سمیر بھائی سے پیسے اٹھانے کے بعد مجھے دیئے۔۔۔۔ان باتوں کی خبر جب میری سینڈیکٹ کے ساتھیوں یعنی کورٹ رپورٹرز کو ہوئی تھی تمام ساتھیوں نے ملکر حسب توفیق میری مدد کی۔۔۔اور یوں خوشی خوشی گاوں جانے کے قابل ہوا۔۔۔۔میں نے فوری طور بھائی اظفر کے ساتھ جاکر اپنی شاپنگ مکمل کی۔۔۔اس موقع پر رفیق بھائی اور کامران شیخ بھائی کی محبتوں کو بھی نہیں بھلا سکتا۔۔انکی جانب سے ملنے والی امداد میرے لئے کسی مرہم سے کم نہ تھی۔۔۔حالانکہ میرا ان پر کوئی حق نہیں تھا۔۔بس انہوں نے اپنی توفیق کے مطابق میری مدد کی جو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔۔میں خوشی خوشی گاوں واپیس۔رمضان کے بعد جب چھٹیاں مکمل ہوئی اور جانے کے دن قریب آئے تو۔۔مجھے ایک بار پھر گھر والوں کوجھوٹا آسرا دے کر کراچی جانا پڑا۔۔۔میرے دماغ وہیں سوالات ابھرنے لگے جو میں اوپر اٹھا چکا ہوں۔۔۔میرے دماغ میں اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات وواقعات کسی فلم کی طرح چلنے لگے۔۔۔۔مجھے سیٹھوں کے ستم یاد آئے۔۔۔۔مجھےلگا کہ واٹس ایپ مافیا، پیداگیر مافیا اور پرچی مافیا کی موجودگی میں ہم جیسے شریف اور ورکنگ جرنلسٹ کا اس فیلڈ میں اب کوئی کام نہیں۔۔۔یہاں اچھے ادارے میں پہچنے کے لئے یا تو طویل انتظار یا پھر پرچی کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔تب تک یہاں چھوٹے اداروں میں رہ کر کم تنخواہ کے ساتھ پیدا گیری سے اپنا گزارا کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔آخر میں ان تین سالوں میں جن فرشتہ نما انسانوں نے مجھے اس فیلڈ میں رہنے پر مجبور کیا انکا ذکر اپنے لئے فخر کا مقام سمجھتا ہوں۔۔مجھے اس فیلڈ میں بھائی عبدالرحمن (این این آئی)بھائی شوکت کورائی(نیوز ون)بھائی فہد صدیقی(روزنامہ پاکستان)امین انور بھائی (جیو نیوز)اظفر عباسی (روزنامہ ایمان)عامر ٹپی بھائی (ایکسپریس نیوز)عرفان بھائی (وقت نیوز)بھائی راجہ ثاقب(ٹونٹی فور نیوز)راجہ عمران(دن نیوز)رانا لیاقت (دنیا نیوز)ارشد بیگ (ایکسپریس نیوز)سہیل بھائی(روز نیوز)بلال شاہ، کامران شیخ، سمیر قریشی (کے ٹونٹی ون نیوز)منصور ضیا(اب تک نیوز)محسن اسماعیل (کیپیٹل نیوز) شاکر سلطان (ایکسپریس نیوز)شفیع بلوچ (ڈان نیوز)وغیرہ جیسے ہیرے ملے۔اس فیلڈ میں اگر میں تین سال ٹک پایا تو ان فرشتہ صفت انسانوں کی بدولت ہی ٹک پایا۔۔ان لوگوں نے نہ صرف میری مالی امداد کی بلکہ ان لوگوں قدم قدم پر میری رہنمائی بھی کی۔۔میں نے اس سے قبل جب بھی صحافت کو طلاق رجعی دیا ان لوگوں نے ہی مجھے دوبارہ رجوع کرنے پر مجبور کیا۔۔لیکن اس بار اوپر زکر کئے گئے حالات کو سامنے رکھ کر میں نے صحافت کو “تین طلاق” دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔۔ اس بار تو حلالے کی بھی گنجائش باقی نہیں۔۔اب بس میں گاوں میں رہتے ہوئے سرکاری نوکریوں کے حصول کے لئے کوشش جاری رکھونگا۔۔نہ ملنے کی صورت میں اپنا کاروبار کرونگا۔جس میں میں خود سیٹھ بھی ہونگا اور ورکر بھی۔۔(احسان الحق)۔۔
(احسان الحق نوجوان صحافی ہیں، ان کا بلاگ ہم نے پڑھا اور اندازہ ہوا کہ نوجوان صحافیوں میں فیلڈ کےحوالے سے کیا جذبات پائے جاتے ہیں، کہ واٹس ایپ مافیا، پیداگیر مافیا اور پرچی مافیا کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا،آج بھی دونمبری کرنے والوں کے خلاف ہیں، بس احسان اور عمران میں فرق یہ ہے کہ ۔۔ایک ہمت ہارکر گاؤں چلاجاتا ہے، دوسرا اب تک میدان میں ڈٹا ہوا ہے۔۔علی عمران جونیئر)۔۔