تحریر: اسلم قائم خانی
کبھی صحافت جنون ہوتی تھی توکبھی مشن۔صحافت کاسفرفخرسے شروع ہوکرمفادپرستی کے گہرے گڑھے میں پہنچ کراختتام پذیری کی طرف بڑھ رہا ہے۔۔ملک کاہرشعبہ برائے فروخت ہواتو اس دوڑ میں پیشہ صحافت بھی شامل ہوگیا اورلگتایوں ہے کہ اس پر کوئی پشیمانی بھی نہیں ۔۔۔ صحافت نے سیاست سے جورشتہ قائم کیاتو صحافت کہیں دور چلی گئی ۔۔اورصحافی سیاسی اکھاڑوں کے کھلاڑی بن کررہ گئے۔۔ صحافی اورصحافتی ادارے سیاسی جماعتوں کے ترجمان بن گئے اوربعض توسیاسی جماعتوں کی حمایت میں ان کے نظریاتی کارکنوں کوبھی پیچھے چھوڑ گئے ۔۔ میرے ملک کے مسائل پس پشت چلے گئے ۔صوبے لاچار اوربے بس نظرآتے ہیں ۔۔ پورے ملک کوچلانے والا میراکراچی ڈوب رہاہے ۔۔ بچے بوڑھے۔بیمار اورخواتین نالوں میں گررہے ہیں ۔۔ کوئی پرسان حال نہیں ۔۔۔ معتبرترین پیشے سے وابستگی کے دعویدار صحافی ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔۔ سیاسی جماعتوں کی ڈگڈگی پرمدہوشی کے عالم میں مسلسل دھمال ڈال رہے ہیں ۔۔ عوام کے مسائل سے سیاستدان اورحکمران مکمل طورپرلاتعلق نظرآتے ہیں ۔۔
صحافی جو معاشرے کی آنکھ ہوتے ہیں شاید انہوں نے بھی اپنی آنکھیں موندھ لی ہیں۔۔ سب سیاست سیاست کھیلنے میں مصروف ہیں ۔۔ ڈالر روزانہ کی بنیاد پر ریس لگارہا ہے ۔ بجلی کے نرخ روزانہ بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔۔ پیٹرول سونے کے بھاٶ ملتاہے۔ مہنگائی نے لوگوں کوفاقہ کشی پر مجبور کردیا لوگ بے بسی کی تصویربنے ہوئے ہیں۔۔ کراچی کی گلیاں ۔سڑکیں اورمرکزی شاہراہیں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں ۔۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کے بعد چلنے کے قابل نہیں رہیں ۔۔منٹوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہورہا ہے۔۔بدترین ٹریفک جام کی بڑی وجہ شاہراؤں پر پانی کھڑا ہونا اور ان کی بدترین حالت ہے۔ شہرمیں کئی کئی گھنٹے بجلی نہیں ہوتی ۔۔بل مسلسل آتے ہیں مگر بجلی نہیں آتی۔۔ زیادہ بارش پر جب زیادہ پانی آتا ہے تو یہاں معاملہ الٹا ہے کم بجلی پر زیادہ بل آتا ہے۔۔ گندگی کی وجہ سے کراچی میں بیماریاں پھیلتی جارہی ہیں ۔شہرکی صورتحال ابترہی نہیں سنگین ہوتی جارہی ہے لیکن اللہ کے فضل سے ہم کراچی والے صحافی خاموش ہیں ۔۔ کیونکہ ہماری اپنی اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں میں ۔۔ ملاکھڑا ۔۔۔ جوہورہا ہےاور ہم نے اس میں حصہ نہ لیا توپھر کیسی صحافت ۔کہاں کی صحافت ۔۔ہم شاید صحافت بھول گئے صرف سیاست یاد رہ گئی ۔۔ مجھ سمیت بہت سے صحافی جن کو کراچی سمیت ملک کے مسائل پر بھرپورتوجہ مرکوز کرنی چاہیئے تھی مگر ہم سب کچھ بھلا کر ۔ منافع بخش کاروبار ۔۔ سیاست کواپنائے ہوئے ہیں ۔۔
چلو مان لیا کہ صحافتی اداروں کے مالکان توصحافت کوکاروبارسمجھتے ہیں لیکن کیاہم صحافیوں نے بھی صحافت کوکاروبار نہیں بنالیا?? ۔۔ کیا ہم اپنے آپکو معاشرے کی آنکھ کہہ سکتے ہیں ۔۔ کیا ہم صحافی اپنے ضمیرسے مطمئن ہیں ۔کیاہم اپنامعاشرتی حق اداکررہے ہیں ۔۔ میراخیال ہے کہ قطعی نہیں ۔میں یہ نہیں کہتاکہ سب ہی صحافی سیاسی حمام کے مسافرہیں بہت بڑی تعداد آج بھی پیشہ صحافت کومقدس جانتی اور مانتی ہے لیکن آج کی صحافت کی مجموعی طورپر جوحالت زار ہے توپھر ۔۔ اس نقارخانے میں طوطی کی آوازکون سنتاہے ۔۔۔ کیاہم سب صحافیوں کواپنی سوچ ۔اپنے افکار۔اپنے کردارکاجائزہ نہیں لینا چاہیئے؟ ۔۔کیاہم اپنے پیشے سے انصاف کررہے ہیں ؟۔۔۔ معذرت کے ساتھ کہناپڑتا ہے کہ ہم نے شاید صحافت کاحشرنشر کردیاہے لگتا ہے کہ ہم نے صحافت کو مالکان کے ساتھ مل کرخوداپنے ہاتھوں سے کوٹھے پر بٹھادیا ہے جہاں جس کاجودل چاہتاہے مرضی کے دام لگاتا اورہماری صحافتی خدمات خریدلیتاہے یوں ہم نے خود صحافت کوبکاٶ مال بنادیا ہے ۔۔۔صحافتی اداروں کے مالکان کامفاد اپنی جگہ لیکن عامل صحافیوں کو آج کی صحافت کو سیاست اورکاروبار کی دلدل سے نکالنا ہوگا کیونکہ جس طرح ملک کاہرشعبہ تنزلی کاشکارہے اسی طرح صحافت بھی اسی تنزلی کے کیچڑمیں لتھڑ چکی ہے ۔ ہم سب صحافیوں کو صورتحال کاادراک کرناہوگا ہمیں اس سیاست کے گندے کھیل سے نکلناہوگا ۔۔ معاشرے میں اپنی اوراپنے پیشے کی عزت کوبحال کرانا ہوگا کیونکہ حالات بہت دگرگوں ہیں اورصحافیوں موجودہ حالات میں اپناتاریخی کرداراداکرناہوگا ۔ رہے نام اللہ کا۔۔(اسلم قائم خانی)۔