تحریر: شہباز اکمل جندران
شعور رکھنے والے صحافت پر حملہ ریاست پر حملہ تصور کرتے ہیں۔ پاکستان ایسا واحد ملک ہے جہاں صحافی اور صحافتی ادارے محفوظ نہیں۔ دہائیوں سے بلوائیوں کی متشدانہ کارروائیوں، حملوں اور توڑ پھوڑ کا نشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں۔ ریاست خاموش تماشائی بن جائے ، بلوائیوں کو نشان عبرت نہ بنائے تو اس طرح کے ’’ افسوس ناک واقعات ‘‘ آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔
چند ہی روز پہلے کی بات ہے یہ خبر علم میں آئی کہ لاہور میں روزنامہ ’’مشرق‘‘ کے دفتر پر حملہ ہوا ہے۔ ڈنڈوں اور آتشیں اسلحہ سے لیس بلوائیوں نے دن دیہاڑے کھلے عام وہ کر دیا ، ریاست جس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ’’مشرق‘‘ جیسے قدیم صحافتی ادارے پر اس حملے نے پوری صحافتی کمیونٹی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے میں شدید اضطراب اور غصہ پایا جاتا ہے۔
صحافتی تنظمیں اور اخباری ایڈیٹرز بلوائیوں کی اس کارروائی کو کھلی جارحیت قرار دے رہے ہیں۔ اُن کی جانب سے مذمتی بیان بھی جاری کئے گئے ہیں۔ سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی نے نجی ٹیلی ویژن کے پروگرام نقطہ نظر میں اس واقعہ کی روداد سنائی اور انتہائی افسوس کا اظہار کیا۔ ارباب اختیار سے کہا کہ انصاف میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہونا چاہیے۔
’’مشرق‘‘ کی تاریخ دیکھیں تو وہ بہت قدیم اور پرانی ہے۔ 60ء کی دہائی میں روزنامہ ’’کوہستان‘‘ بند ہونے پر ’’مشرق‘ کے نام سے نئے اخبار کا ڈیکلریشن لیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب اخبارات پر سخت سنسر شپ تھی۔ کسی نئے اخبار یا میگزین کا ڈیکلریشن حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ پرائم منسٹر لیول تک رسائی کے بعد ہی کسی نئے اخبار کے ڈیکلریشن کا اجراء ممکن ہوتا۔
’’مشرق‘‘ نے لاہور سے اپنی اشاعت کا آغاز کیا تو اخبار میں ’’کوہستان‘‘ والی پوری ٹیم کو لے لیا ، سخت نامساعد حالات تھے، اس کے باوجود اخبار نے ثابت کیا کہ اچھی صحافت کا اُس سے بہترین داعی کوئی اور ہو نہیں سکتا۔ اس میں کام کرنے والے ورکنگ جرنلسٹ اپنی مثال آپ تھے۔ جنہوں نے صحافت میں بہت سی نئی جہتیں متعارف کرائیں۔ اخبار کی پالیسی کو وقت کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔
وقت جوں جوں گزرا، اخبار نے پنجاب میں اپنی جگہ بنا لی اور مقبولیت کی اعلیٰ ترین معراج کو چھونے لگا۔ 80ء کی دہائی میں ’’مشرق‘‘ پنجاب کا سب سے بڑا اور سب سے مقبول اخبار بن چکا تھا۔ رکشے والاہو یا ٹیکسی والا، حجام تھا یا کوئی دکاندار، حتیٰ کہ سیاست دان بھی اس کے قاری نظر آئے۔ اقتدار کے ایوانوں تک ’’مشرق‘‘ دکھائی دینے لگا۔ اس کی جو بھی خبر ہوتی، معتبر اور یقین دلانے والی ہوتی۔ کوئی اسکینڈل نہ ہوتا، خبر میں جھوٹ کی آمیزش نہ ہوتی۔ اخبار نے رفتہ رفتہ اتنی جگہ بنالی کہ لاہور کے علاوہ کراچی، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ سے بھی شائع ہونے لگا۔ بعد ازاں ’’مشرق‘‘ کو حکومت نے ٹرسٹ کے تحت کر دیا۔ حکومتی ٹرسٹ اس کے سارے نظم و نسق کا ذمہ دار تھا۔ نوے کی دہائی آئی تو اسے آزاد حیثیت ملی۔
’’مشرق‘‘ میں کام کرنے والے یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ لوگ اخبار پڑھ کر زبان و بیان سیکھتے ۔ ’’مشرق‘‘ نے اردو کی بڑی خدمت کی۔ رپورٹنگ میں وہ معیار قائم کیا جس کی آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں۔
ساری تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ باور کرا سکوں ’’مشرق‘‘ کوئی عام روزنامہ یا صحافتی ادارہ نہیں۔ ماضی کی ایک پوری تاریخ رکھتا ہے۔ لوگ اس سے سیکھتے تھے۔ رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ لیکن درجن بھر سے زیادہ غنڈوں نے چند روز پہلے چند بدبختوں کی ایماء پر یہ ساری کارروائی کی۔ دفتر کو تہس نہس کر دیا۔
اخبار کے ایڈیٹر اشرف سہیل ہیں جو بہت دھیما مزاج رکھتے ہیں۔ اچھے لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ شریف النفس انسان بھی ہیں۔ اُن کے توسط سے ساری روداد کا علم ہوا۔ احساس پیدا ہونے لگا کہ کیا کسی مہذب معاشرے میں اس طرح کی لاقانونیت بھی ہو سکتی ہے۔ جو اخبار دوسروں کی خبر دیتا ہے آج خود خبر بن جائے گا، سوچا بھی نہ تھا۔
واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ روزنامہ کا آفس رائے ونڈ روڈ پر ایک ٹائون میں واقع ہے جہاں درجن بھر سے زیادہ افرادنے جن کے پاس ڈنڈے اور آتشیں اسلحہ تھا، ایک عدالتی حکم کی آڑ میں دفتر پر حملہ آور ہو گئے۔ کارکنوں کو زدوکوب کیا ۔ املاک اور الیکٹرونکس کا سامان اور کمپیوٹر سیکشن کو نقصان پہنچایا۔ اور تمام سی سی ٹی وی کیمرے توڑ ڈالے۔ فرنیچر اور تمام قیمتی اشیاء دفتر سے باہر پھینک دیں جس سے لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔ تھانہ ’’چوہنگ‘‘ سے اس ’’وقوعہ‘‘ کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے رجوع کیا گیا تو پولیس نے ہاتھ اٹھا دئیے اور مقدمہ کے اندراج سے صاف انکار کر دیا جس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ بلوائیوں نے پہلے سے ہی علاقہ پولیس سے سازباز کر رکھی تھی۔ ساز باز نہ ہوتی تو اتنی ڈھٹائی، بے شرمی اور دلیری سے ایک میڈیا ہائوس پر اس طرح حملہ نہ ہوتا۔
ایڈیٹر اشرف سہیل کے مطابق جس جگہ روزنامہ کا آفس ہے اُس میں واقع دو کنال اراضی کے حوالے سے حملہ آور پارٹی نے مقامی سول کورٹ سے ایک حکم لیا۔ تعمیل حکم کے لیے عدالتی اہلکار اور پولیس کے کچھ ملازمین بھی اپنے ساتھ لے کر جائے وقوعہ پر آ گئے۔ اُن کے غنڈے بھی تھے، بجائے اس کے کہ عدالتی حکم کی بجا آوری کے لیے بات کی جاتی، عدالتی حکم دکھایا جاتا، موقع پر موجود غنڈوں نے ڈنڈوں اور اسلحہ کے زور پر توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ لاکھوں کا نقصان کیا اور جاتے ہوئے کیشیئر سے رقم بھی چھین کر لے گئے۔ ایف آئی آر کا اندراج نہ ہونے پر مشرق انتظامیہ نے فوری ڈی آئی جی آپریشن لاہور محمد کامران فیصل سے رجوع کیا۔ انہوں نے پوری بات سن کر واقعہ کی انکوائری کے لیے ایس پی صدر کو مجاز افسر مقرر کر دیا ہے۔
تاہم جیسے ہی یہ خبر لاہور پریس کلب اور دیگر میڈیا تنظیموں تک پہنچی انہوں نے سخت ردعمل اور غصے کا اظہار کیا۔ واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ کسی میڈیا ہائوس پر حملے کا یہ واقعہ کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے قبل بھی کئی میڈیا ہائوسز پر اس نوعیت کے حملے ہو چکے ہیں۔ بہت صحافی بھی حملہ آوروں کا نشانہ بنتے آئے ہیں۔ چند ہی سال پہلے کی بات ہے جب کراچی میں ایک بڑے قومی اخبار اور اُس کے میڈیا ہائوس (ٹی وی چینل) پر ایک سیاسی جماعت کے غنڈوں نے حملہ کر دیا۔ وہاں موجود کارکنوں کو زدوکوب کیا۔املاک کو شدید نقصان پہنچایا۔ مقدمہ درج ہو گیا لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔
80ء کی دہائی میں لاہور کے ایک قومی اخبار کے دفتر پر حملہ کیا گیا۔ کافی لوگ زخمی ہوئے۔ حملے میں املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ صحافیوں پر حملوں کی ایک قدیم تاریخ ہے۔ ملک بھر میں اب تک بیسیوں صحافی قتل ہو چکے ہیں۔ لیکن ایف آئی آر میں نامزد ملزم کم ہی پکڑے گئے۔
’’مشرق‘‘ میں جو ہوا ، تاریخ کا المناک باب ہے۔ کیا لوگ اتنے منہ زور ہو گئے ہیں کہ جب چاہیں کسی کی املاک پر حملہ کر سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے اب ڈی آئی جی آپریشن کے حکم پر ایس پی صدر کی سربراہی میں جو انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے وہ کب تک اپنا کام مکمل کرتی ہے اور فائنڈنگ کیا دیتی ہے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے۔ ورنہ اعتبار اٹھ جائے گا کہ پاکستان میں انصاف بھی ہوتا ہے۔(بشکریہ نوائے وقت)۔۔