تحریر: جاوید چودھری
امریکا کے 36 ویں صدرلنڈن بی جانسن کا ایک قول سیاست کی بے شمار کتابوں میں نقل ہوا‘ صدر جانسن نے کہا تھا ’’آپ اگر سیاست دان ہیں اور آپ کسی کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور آپ کو داخل ہوتے ہی یہ معلوم نہ ہوسکے کمرے میں موجود کون سا شخص آپ کا حامی اور کون کون مخالف ہے تو پھر آپ کو سیاست چھوڑ دینی چاہیے‘‘ یہ قول صرف سیاست تک محدود نہیں‘ میں اسے صحافت کا اصول بھی سمجھتا ہوں‘ صحافی اگر چہرے نہیں پڑھ سکتا‘ یہ اگر لفظوں کے پیچھے چھپا مفہوم نہیں سمجھ سکتا اور یہ اگر ہواؤں کی تبدیلی کو محسوس نہیں کر سکتا تو پھر یہ صحافی نہیں ہو سکتا‘ اس کو پھر صحافت چھوڑ دینی چاہیے۔
سیاست اور صحافت دونوں کزن ہیں‘ سیاست صحافت کے بغیر ممکن نہیں اور صحافت سیاست کے بغیر نہیں چل سکتی‘یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور شاید اس تلخ حقیقت کو حقیقت سمجھ کر کل ایک وفاقی وزیر نے مجھ سے ایک دل چسپ سوال پوچھا‘ ان کا کہنا تھا’’ آپ ہمیں مزید کتنے دن دیں گے‘‘ میں نے اوپر آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا‘ عزت‘ رزق اور اقتدار کا فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہے‘ وہ جب تک چاہے گا آپ کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہٹا سکے گی اور جس دن اس نے فیصلہ کر لیا پھر آپ کو دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی نہیں بچا سکیں گی۔
میں نے وزیر صاحب کو حضرت موسیٰ ؑ کا واقعہ سنایا‘ حضرت موسیٰ ؑ نے ایک دن اللہ سے پوچھا ‘یا باری تعالیٰ کیا آپ کو کبھی ہنسی آتی ہے؟ اللہ نے جواب دیا ہاں دو موقعوں پر میں بھی ہنس پڑتا ہوں‘ ایک جب میں کسی شخص کو نوازنا چاہوں اور دنیا اس شخص سے چھیننا چاہے تو مجھے بہت ہنسی آتی ہے اور دوسرا اگر میں کسی کو کسی چیز سے محروم کرنا چاہوں اور دنیا اسے وہ چیز دینا چاہے تو بھی مجھے اس وقت بڑی ہنسی آتی ہے‘ میں نے وزیر صاحب سے عرض کیا ’’ اگر اللہ آپ کے ساتھ ہے تو پھر کون کون آپ کا مخالف ہے کوئی فرق نہیں پڑتا اور آپ اگر اللہ کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں تو پھر پوری دنیا مل کر بھی آپ کو نہیں بچا سکتی۔
لہٰذا میرا مشورہ ہے آپ زمین والوں پر توجہ دینے کے بجائے اوپر والے کو راضی رکھیں‘ آپ کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکے گا‘‘ وہ مسکرائے‘ دیر تک سر ہلاتے رہے اور پھر کہا‘ آپ کی بات ٹھیک ہے مگر آپ کا تجزیہ کیا ہے؟ میں نے ہنس کر کہا’’ تجزیہ پرسوں عمران خان‘ کل مولانا فضل الرحمن اور آج چیئرمین نیب نے فرما دیا ‘ ان تین تجزیوں کے بعد مزید کسی تجزیے کی ضرورت نہیں رہتی‘‘ وہ غور سے میری طرف دیکھتے رہے اور پھر کہا ’’میں سمجھا نہیں‘‘ میں نے کہا‘ وزیراعظم عمران خان نے 18 نومبرکو حویلیاں میں غصے سے بھرپور تقریر کی‘ یہ تقریر‘ غصہ اور باڈی لینگویج تینوں منہ سے بول رہی ہیں وزیراعظم مزید وزیراعظم نہیں رہے‘ یہ اپوزیشن لیڈر بن چکے ہیں۔یہ ایک بار پھر سڑکوں پر جانے اور عوام کی مدد لینے کا فیصلہ کر چکے ہیں‘ یہ سوچ رہے ہیں مجھے عوام کے پاس جا کر اتنی فورس کے ساتھ واپس آنا چاہیے کہ میں حکومت کے لیے ایم کیو ایم‘ ق لیگ اور باپ (BAP)کی بیساکھیوں کا محتاج نہ رہوں‘ میں ’’ٹو تھرڈ میجارٹی‘‘ کے ساتھ آؤں‘ اپنی مرضی کے فیصلے کروں اور کوئی ادارہ ان فیصلوں کے راستے میں مزاحم نہ ہو‘ میں اپنی مرضی کے وزراء بھی تعینات کر سکوں‘ وزیراعظم نے تقریر میں سب کو لتاڑ دیا‘ عدلیہ کو بھی پیغام دے دیا اور یہ کہہ کر’’ میں ہار نہیں مانتا‘‘ خلائی مخلوق کو بھی چیلنج کر دیا۔وزیراعظم نے تقریر کے اگلے دن اسد عمر کو کابینہ میں واپس لے کر اپنی اتھارٹی منوانے‘ خود کو وزیراعظم ثابت کرنے کے لیے دوسری شارٹ بھی کھیل دی‘ آپ کو یاد ہو گا اسد عمر 20 منٹ میں ہیلی کاپٹر کی لینڈنگ سے پہلے فارغ کر دیے گئے تھے‘ عمران خان نے ان کو واپس لے کر ہوا میں دوسرا مکا لہرا دیا۔
دوسرا تجزیہ مولانا فضل الرحمن نے 19 نومبر کو بنوں میں کیا‘ مولانا کا کہنا تھا ’’ہم اسلام آباد ویسے نہیں گئے تھے اور ہم وہاں سے ویسے واپس نہیں آئے ہیں‘‘ یہ کہتے ہوئے مولانا مسکرائے بھی اور ان کی مسکراہٹ میں سب کچھ تھا اور تیسرا تجزیہ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال نے دیا‘چیئرمین نے کہا ‘ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے‘ اب حکومت کا احتساب بھی ہو گا چناں چہ ان تینوں تجزیوں کے بعد مزید کسی تجزیے کی ضرورت نہیں رہتی‘ آپ لوگ اپنا سامان باندھنا شروع کر دیں‘ حالات بہرحال اچھے نہیں ہیں‘ عمران خان نے ’’ٹوتھرڈ میجارٹی‘‘ کا فیصلہ کر لیا ہے۔
وزیر نے حیران ہو کر کہا ‘آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں‘ میں نے ہنس کر جواب دیا‘ اورنگزیب عالمگیر کا ایک پرانا ملازم تھا‘ اس ملازم نے اس سے ایک دن کہا‘ عالی جاہ! آپ دکن پر حملے کے لیے کب روانہ ہو رہے ہیں؟ اورنگزیب نے حیران ہو کر پوچھا‘ تمہیں کس نے بتایا ہم دکن پر حملہ کریں گے؟ اس نے عرض کیا‘ حضور میں آپ کو 25 سال سے وضو کرا رہا ہوں‘ میں دو دن سے دیکھ رہا ہوں آپ فجر کے وقت وضو کے بعد دکن کی طرف دیکھتے ہیں‘ داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور ان شاء اللہ‘ ان شاء اللہ کہتے ہیں‘ میں نے آپ کے ان شاء اللہ سے اندازہ لگایا آپ دکن فتح کرنے کا فیصلہ فرما چکے ہیں۔
میں نے یہ واقعہ سنانے کے بعد عرض کیا ’’ میں پیدائشی صحافی ہوں چناں چہ مجھے وزیراعظم کے لہجے میں سب کچھ نظر آ گیا‘ یہ وزیراعظم کی تقریر نہیں تھی‘ یہ عوامی لیڈر کی تقریر تھی‘ اس عوامی لیڈر کی تقریر جس نے پورے سسٹم سے ٹکرانے کا فیصلہ کر لیا ہو‘‘ وہ تھوڑی دیر سوچتے رہے اور پھر پوچھا ’’لیکن ہم جائیں گے کیسے؟‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’میدان سامنے موجود ہے‘ پوری دنیا کو کھیل اور کھلاڑی نظر آ رہے ہیں بس آپ لوگ ہی بے خبر ہیں‘‘ وہ بولے ’’مثلاً‘‘ میں نے عرض کیا ’’مثلاً فارن فنڈنگ کیس‘ یہ کیس آپ کے گلے میں استروں کا ہار ہے‘ یہ ہار کسی بھی وقت اپنا اثر دکھا دے گا‘ دوسرا حکومت اتحادیوں کی ٹانگوں پر کھڑی ہے۔
یہ بھی بہت کچھ کہہ رہے ہیں‘ ان کے الفاظ بھی مستقبل کی تصویر میں رنگ بھر رہے ہیں‘‘ وہ خاموشی سے سنتے رہے‘ میں نے عرض کیا ’’جھاڑو کی گانٹھ کھل چکی ہے بس تنکے بکھرنے کی دیر ہے اور کھیل ختم‘‘ وہ بولے ’’حکومت کے پاس کیا آپشن بچتے ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’دو آپشن ہیں‘ آپ اپنی پرفارمنس پر توجہ دیں‘ انڈسٹری چلنے دیں‘ بے روزگاری اور منہگائی کنٹرول کریں اور اہل پوزیشن پر اہل لوگوں کو لگائیں‘ آپ کی حالت یہ ہے صدر نے تین دن پہلے ابرار الحق کو ریڈکراس کا چیئرمین لگا دیا‘ پرانے چیئرمین ڈاکٹر سعید الٰہی ہائی کورٹ چلے گئے‘ عدالت نے صدر کا آرڈر منسوخ کر دیا۔
ابرار الحق دوستوں‘ پھولوں اور مٹھائی کے ساتھ دفتر پہنچ گیا اور گارڈ نے اسے گیٹ پر روک لیا‘ آپ پلیز یہ کام اب بند کر دیں‘ حکومت جس کو چاہتی ہے اسے احسان مانی کی طرح چیئرمین لگا دیتی ہے اور پھر پوری حکومت دانتوں سے گانٹھیں کھولتی ہے اور دوسرا آپشن آپ اگر پانچ سال پورے کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ماڈل پر جانا ہوگا‘ نواز شریف نے کے پی کے آپ‘ سندھ پیپلز پارٹی اور بلوچستان بلوچ پارٹیوں کے حوالے کر کے پانچ سال پورے کیے تھے‘ آپ بھی بلوچستان کو اوپن کر دیں‘ وہاں بے شک مولانا فضل الرحمن اپنی حکومت بنا لیں اور پنجاب شریف فیملی یا چوہدریوں کے لیے کھلا چھوڑ دیں۔یہ دونوں مل کر حکومت بنا لیں یا پھر اپنا وزیراعلیٰ لے آئیں یوں آپ کو وقت مل جائے گا ورنہ دوسری صورت میں یہ گاڑی چلتی نظر نہیں آ رہی‘ آپ بس کے نیچے ٹریکٹر‘ سوزوکی اور سائیکل کے ٹائر لگا کر زیادہ دیر تک اسے نہیں کھینچ سکیں گے‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’کیا مولانا پھر آئے گا‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا‘ مولانا خود پلان بی ہیں‘ آپ اگر خود نہ گئے تو پھر مولانا دوبارہ میدان میں آئیں گے‘ ان کے چار پلان ہیں‘ اے‘ بی‘ سی اور ڈی‘ یہ اے اور بی پلان بھگتا چکے ہیں‘ یہ سی پلان کے تحت ضلعے بند کریں گے اور یہ آخر میں ڈی پلان کے ذریعے ڈی چوک بھی آئیں گے اور وہ ساری حرکتیں بھی کریں گے جو آپ لوگوں نے 2014ء میں کی تھیں چناں چہ اِدھر یا اُدھر اب خربوزہ کٹ کر ہی رہے گا‘‘۔
وہ تھوڑی دیر سوچتے رہے اور پھر بولے ’’آپ کے تجزیے کی بیس کیا ہے؟‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’صدر لنڈن بی جانسن‘ آپ اگر کمرے میں داخل ہو کر یہ اندازہ نہیں کر سکتے آپ کے ساتھ کون ہے اور مخالف کون تو پھر آپ سیاست دان نہیں ہیں اور آپ اگر کسی لیڈر کی باڈی لینگویج یا الفاظ سے اس کی پلاننگ نہیں جان پاتے تو پھر آپ صحافی نہیں ہیں اور میرا خیال ہے صحافت میرے اور سیاست آپ کے بس کی بات نہیں‘ہم دونوں کے تجزیے غلط ثابت ہو جاتے ہیں لہٰذا ہم دونوں کو اپنا اپنا کام چھوڑ دینا چاہیے‘‘ ہم دونوں نے قہقہہ لگایا اور چل پڑے۔(بشکریہ ایکسپریس)