alu timatar lelo sahafi lelo

صحافت اور صحافی بچا لیں

تحریر: محمد نواز طاہر۔۔

لاہور میں جناح ہاﺅس سمیت مختلف حساس قومی و دفاعی تنصیبات ، دیگر شہروں میں بھی حساس مقامات ، قومی دفاعی سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے بعد شرپسندوں ار لوت مار کرنےوالوں کیخلاف کارروائی جاری ہے جس میں لاہور میں جناح ہاﺅس کے واقعے سے متعلق میڈیا کارکن بھی زیر تفتیش ہیں ، اسی دوران لاہور پریس کلب کی طرف سے ایک بولڈ اسٹیپ اٹھایا گیا ہے کہ مشکوک افراد کی گرفتاری کے عمل کے دوران جو میڈیا کارکن بھی مشکلات کا شکار ہیں انہیں شک کی بناءپر کسی سخت کارروائی سے محفوظ رکھنے کیلئے عدالتِ عالیہ سے رجوع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نو مئی کو اس افسوسناک واقعے کی کوریج کیلئے وہاں موجود کے کوائف اور تفتیشی عمل میں تعاون کا عمل بھی جاری ہے اور امید کی جارہی ہے کہ جو کارکن کسی غلط عمل میں ملوث نہیں ہوگا اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی ، غالباًٍ صحافتی برادری اور ریاستی ادارے بھی اس نکتے پر متفق ہیں ۔

 اظہارِ رائے ، آزادی صحافت اور صحافتی ذمہ داریاں ملک کے اندر دیانتداری اری سے کس قدر مشکل ہیں یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے لیکن اس سے بڑا سوالیہ نشان یہ ہے کہ فرائض کی انجام دہی کیلئے حساس اور کنفلیکٹ ایریاز میں جانے والے رپورٹرز ، فوٹوگرافرز ، کیمرہ میں اور معاون عملہ کس قدر تربیت یافتہ ہے ؟ ایسا ہی ایک سوال یہ بھی ہے کہ آزادی اظہار رائے اور اذادی صحافت درحقیت ہے کیا اور اس کی حدودو قیود کیا ہیں ، ؟ اور جب میڈیا کارکن ایسے فرائئض کی انجام دہی کیلئے جاتے ہیں تو ان پر اپنے اداروں کی طرف سے کیا کیا دباﺅ اور فرمائیشیں ہوتی ہیں ؟ اور فےلڈ مےں صحافےوں اور مےڈےا ورکرز کو کن کن خطرات اور چےلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے ان سے عمومی طور پر دفاتر کے اندر موجود عملے یا میڈیا ارگنائزیشن کو قطعی سروکار نہیں ہوتا اور وہ موقع پر موجود اسٹاف کو بعض اوقات ایسے حالات سے بھی دوچار ہونا پڑ جاتا ہے کہ ان کی اپنی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے مگر انہیں اپنے روزگار کے بچانے کے لئے ان خطرات کا سامنا کربا پڑتا ہے ۔ اگرچہ اسوقت پاکستان میں مشروم کی اتنی ورئٹی نہیں جتنی تعداد اور ورائٹی میڈیا کارکنوں کی نمائندگی کی دعویدار تنظیموں کی ہے جن میں سے بہت سی تو صرف سوشل میڈیا لیٹر پیڈ پر ہی جود رکھتی ہیں، اور پرانی تنظیمیں ہیں اور ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں ان کے’ مسائل‘ بھی مختلف ہوچکے ہیں اور ان کے قبلے بھی بڑی حد تک بدل چکے ہیں اور وہ اس کے باوجود عصر، حاضر کے تقاضوں اور حالات کے مطابق صحافی ، آزادہی صحافت او ر اس کی حدودو قیود کا باقاعدیہ تعین نہیں کرسکیں حالانکہ سنہ انیس سو پچاس میں پاکستان فیڈرل یونین کے باقاعدہ قیام کے وقت بنائے جانے والے آئین میں اخباری کارکنوں ( تب نیوز ایجنسیوں کے ماسوابا قی میڈیا نہیں تھا ) ۔ میں ذاتی طور پر اس کاتجربہ بھی رکھتا ہوں اور یہ مسائل بھی بھگتے ہیں اور اس ذہنی اذیت سے بھی گذرا ہوں جب پی ایف یو جے کے آئین کی ترمیم کے عمل میں کمیٹی کے ایک رکن کی حیثیت سے عامل صحافی کی تعریف پر بحث جاری تھی اور اس مین سب سے مشکل مرحلہ سوشل میڈیا کے( مالک) صحافیوں کو اس دستور کے تحت عامل صحافی تسلیم کرنے کا دباﺅتھا ساتھ ہی یہ دباﺅ بھی تھا کہ الیکٹرا نک میڈیا کے نیوز ریڈر ( نےوز کاسٹرز) کو بھی صحافی تسلیم کیا جائے ، جس حد تک ہوسکتا تھا میں تو اسٹینڈ لے گیا لیکن اس کو بعد میں تنظیمی طور پر بھگتا بھی ہے حالانکہ پی ایف یو جے کے دستور میں پہلے روز سے ہی واضح کیا گیا کسی بھی اشاعتی و نشریاتی ادارے کا مالک کسی طورپی ایف یو جے کا رکن

 نہیں ہوسکتا اور ایسی ہی کڑی شرائط سیاسی مذہبی لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں سے تعلق یاعہدے رکھنے والوں کیلئے بھی مگر اس پابندی کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے اور مختلف اوقات میں زیادہ تر مسائل بھی عامل صحافیوں کے بجائے ’ خاص ‘ صحافیوں کی وجہ سے جنم لیتے ہیں ۔

 اسوقت بھی پی ایف یو جے ( بھلے کوئی بھی گروپ یا دھڑا ہو یا نمائشی گروپ ہی کیوں نہ ہو) مشکلات کاشکار دکھائی دیتا ہے لیکن وہ” اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیرنے “کیلئے تیار نہیں، یہ جملہ اگرچہ سخت ہے لیکن کلی طور پر حقیقت کے برعکس نہیں۔

 ہماری تنظیمیں زیادہ تر این جی اوز کے زیر اثر آچکی ہیں آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کی تعریف بھی وہی کرتی ہیں جو مخصوص مقاصد سامنے رکھنے والے سیاسی ، مذہبی اور غیر سرکاری تنظیمیں بیان کرتی ہیں ، جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ جو رپورٹر ، فوٹر گرافر ، کیمرہ میں جان جوکھوں میں ڈال کر کوئی خبر ، تصویر یا فوٹیج لاتا ہے اور اسے میڈیا ارگنائزیشن صحافتی آزادی کے بجائے اپنے مخصوص مقاصد کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے شائع یا نشر کرنے سے روک لیتی ہے تو کیا وہ صحافت کی آزادی پر حملہ نہیں ہوتا ؟ اس ایشو پر کوئی تنظیم بتاسکتی ہے کتنےمیڈیا مالکان کیخلاف آج تک سڑکوں پر آکر احتجاج کیا گیا ہے ؟ کیا میڈیا مالکان آذادی صحافت کے بجائے میڈیا ارگنائزیشن کی سیاسی و مذہبی اور سماجی تعلقداری اور مفاد پر مشتمل پالیسی کے مطابق ” حقائق “ پیدا کرنے پڑتے ہیں یا مخصوص نکتہ نظر سر کونٹینٹ تیار کرنا پڑتا ہے تو وہاں اذادی صحافت اور دیانتداری کہاں ہوتی ہے ؟ اور استے روزگار کے تحفظ کی مجبوری کے کفن میں دفن کرنا پڑتا ہے ، یہی مجبوری یا آگے بڑھنے و مال کمانے کا جنون ارگانائزیشنزکی پالیسیوں سے اگلے راستے پر لگاتا ہے اور وہ خود بھی ویسا ہی ہوجاتا اور صحافی کے بجائے ’ پارٹی ‘ بن کر خود ہی کام کرنا شروع کردیتا ہے ، ایسے نام اور چہرے سماج میںکسی سے بھی چھپے ہوئے نہیں ، انہیں سوشل میڈیا نے مزید مدد فراہم کی ہے کہ جو کچھ وہ اپنے ان اداروں میں نہیں کرسکتے ہیں جہاں ملازمت کرتے ہیں ، وہ کچھ اپنے سول میڈیا کے ذریعے کرتے ہیں جہاں نہ کوئی قدغن ہے اور نہ ہی کوئی ان سے سوال کرنے والا ، مکمل آزادی چاہے مادرپدر آزادی سے بھی دو قدم آگے بڑھ جائیں ۔

 بطور رپورٹر ایسے کئی لوگوں سے واسطہ رہتا ہے جو اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران مخصوص کام بھی کررہے ہوتے ہیں۔ ان حالات میںاشد ترین ضرورت عامل صحافی ، آذادی صحافت ، آذادی اظہار ِ رائے اور میڈیا کارکن کے شفاف پیشہ وارانہ کردار کا تعین انتہائی ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسے کمیشن کی بھی ضرورت ہے جو تمام اسٹیک ہولڈرز کی رائے سے تمام تعریفات اور حدود قیود کا تعین کرنے کے علاوہ یہ بھی دیکھے کہ اس وقت ’ہاٹ واٹر‘ میں غوطے کھانے والوں کا کوئی جانے انجانے میںایساذاتی عمل بھی تو نہیں جو انہیں اس نہج تک لانے کا موجب بنا ہو اس کمیشن کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ این جی او زدہ ، سیات زدہ ، مخصوص مقاصد اور مفادات رکھنے والی کسی شخص کو اس کا حصہ نہ بنایا جائے جبکہ دیاندار اور پیشے سے مخلص باشعورصحافیوں کی کمی نہیں بلکہ اکثریت ہے ۔ یہ کیشن میڈیاارگنائزیشن کی طرف سے میڈیا ورکرز کو تفویض کی جانے والی ڈیوٹی کے خطرناک و سنگین نتائج کا ذمہ دار بھی ٹھہرائے اور اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہو

بصورتِ دیگر صحافی پیشہ وارانہ فرائض دیانتداری سے ادا کرتے ہوئے بھی شہید ہوتے رہیں گے اور مخصوص مفادات کے تحفظ کی بھینٹ بھی چڑھتے رہیں گے ۔(محمد نواز طاہر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں