تحریر: مظہر عباس۔۔
آج صحافتی دنیا کی ایک بااصول آواز نثار عثمانی صاحب کی تیسویں (30) برسی ہے جن کا 4ستمبر1994کو انتقال ہوا۔ میری خوش نصیبی کہ مجھے ان کے ساتھ ٹریڈیونین اور آزادی صحافت کی جدوجہد میںکام کرنے کا موقع ملا لیکن جو لڑائی انہوں نے منہاج برنا، کے جی مصطفیٰ، ایم اے شکور اور اپنے کئی دیگر ساتھیوں کے ساتھ ملکر لڑی اس کی مثال صحافتی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان کے انتقال پر ایک بار سپریم کورٹ کے جج جسٹس دراب پٹیل نے کہا تھا’’ وہ ایک انتہائی ایماندار، نڈر اور کھرے صحافی تھے۔ ذہنی طور پر کھراپن اک ایسی صفت ہے جو پاکستان میں نایاب ہے‘‘۔ اور بقول عاصمہ جہانگیر، ’’عثمانی صاحب آخری سانس تک صحافی ہی رہے اور آزادی صحافت کیلئے لڑتے رہے‘‘۔ ان کی خاص بات تھی کہ انہوں نے بھرپور انداز میں صحافت بھی کی اور جب اسی کی پاداش میں جیل جانا پڑا تو قید بامشقت کو عملی جامہ پہنایا اور قیدیوں کا لباس پہن کر عام قیدیوں کے ساتھ دیگر صحافی دوستوں کے ساتھ مل کر’ مشقت‘ بھی کی۔ بدقسمتی سے ہم عثمانی صاحب کا ’مشن‘ آگے لے جانے میں ناکام رہے اور اس طرح تقسیم درتقسیم کا شکار ہوئے کہ نہ بہتر صحافی بن پائے نہ اچھے ٹریڈیونینسٹ۔
عثمانی صاحب اور برنا صاحب کی جوڑی نے وہ علم اور قلم مضبوطی سے تھام رکھا جو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی بنیاد بنا اور ایم اے شکور اور اسرار احمد سے ہوتا ہوا، ان دو قائدین تک پہنچا۔جب تک مشرقی پاکستان ہمارا حصہ رہا اس وقت تک وہاں کے جی مصطفیٰ اور دیگر کی آوازیں بلند ہوتی رہیں کہ ’محبت گولیوں سے نہیں بوئی جاتی‘۔ عثمانی صاحب اتنے کھرے انسان تھے کہ جب ان کو فوجی عدالت سے سزا ہوئی اور کوٹ لکھپت جیل آئے تو جیلر سے یہ درخواست نہیں کی کہ مجھے کون سی کلاس دوگے، گھر سے کھانا یا دیگر سہولتوں کی بات کے بجائے سلام کے بعد پوچھا، میرا قیدی والا لباس کہاں ہے اور مجھے مشقت کیا کرنی پڑے گی‘‘۔جیلر ان کو جانتا تھا کہنے لگا، ’’عثمانی صاحب آپ بڑی لڑائی لڑرہے ہیں ہمیں بھی کچھ خدمت کاموقع دیں مشقت نہیں آرام کریں مگر وہ تو مولانا حسرت موہانی کے مقلد تھے، کہا ’’مجھے قید بامشقت کی سزا ہوئی ہے مجھے کام بتاؤ کیا کرنا ہے‘‘۔ ہمارے ایک سینئر ساتھی اور بی بی سی سے برسوں وابستہ رہنے والے علی احمد خان صاحب نے میری درخواست پر عثمانی صاحب پر ایک عمدہ تحریر بھیجی جس میں انہوں نے ان کے ساتھ جیل کے اندر کے بھی واقعات لکھے ہیں۔خاں صاحب کے بقول، ’’ہم سب ساتھی کوٹ لکھپت جیل میں ساتھ تھے۔ لمبی میعاد کی قید بامشقت کی سزائیں تھیں ،ایک الجھی ہوئی اون تول کر صبح کو دے دی جاتی اور ہمارا یہ کام ہوتا کہ اسکے گولے بناکر شام کو بیرک بند ہونےسے پہلے تول کر واپس کریں۔ اکثر واپسی میں اس کاوزن کم ہوجاتا توجیل حکام عثمانی صاحب سے شکایت کرتے کہ آپ کے ساتھی ایسا کرتے ہیں کسی اور سے کرتے تو وہ جھڑک دیتا عثمانی صاحب ہم کو نصیحت کرتے‘‘۔ خاں صاحب بیان کرتے ہیں، ’’اصل مسئلہ یہ تھاکہ ایک الجھی ہوئی اون کا سلجھنا بڑا مشکل تھا اس کا ایک سرا کہیں اٹک جاتا تو ڈھونڈے نہ ملتا عاجز آکر ہم لوگ اس حصے کو توڑ کر پھینک دیتے تھے اور نئے سروں کو گرہ باندھ کر جوڑ دیتے۔ عثمانی صاحب اپناکام کرکے اٹھتے تو اپنی اون کو اچھی طرح ڈھک دیتے جبکہ ہم لوگ اتنی احتیاط نہیں کرتےتھے‘‘۔
جنرل ضیاالحق سے ان کا لاہور ایئرپورٹ پر مکالمہ بہت مشہور ہوا جب ضیاء نے اخباری خبروں اور کالم نویسوں پر تنقید کی اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگر میرا بس چلے تو انہیں الٹا لٹکا دوں کوئی اف تک نہیں کرے گا، عثمانی صاحب کھڑے ہوگئے اور بولے ’’جنرل صاحب ہمیں لیکچر نہ دیں۔ اپنے دورے کے بارے میں بتائیں۔ میں آپ سے سیاست سیکھنے نہیں آیا ہوں وہ تو میںنے آٹھ سال تک زمانہ طالب علمی میں کی ہے ناہی مجھے آپ سے مذہبی معاملے پر درس لینا ہے۔ اگر کچھ معلوم کرناہوا تو کسی مذہبی عالم سے معلوم کرلوں گا‘‘۔
عثمانی صاحب نے صرف صحافیوں ہی نہیں بلکہ سیاستدانوں اور دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی صحافتی اصولوں پر مبنی رپورٹنگ اور تحریروں سے متاثر کیا۔ ان کی تنقید کا انداز بھی کھرا ہوتا مگر انہوں نے کبھی کسی پر ذاتی حملہ نہیں کیا۔ انکے نزدیک صحافت اور ٹریڈ یونین دونوں کے اصولوں میں کردار کی بلندی ہونا ضروری ہے۔ میری عثمانی صاحب سے آخری ملاقات ان کے انتقال سے چند ماہ پہلے ہوئی تھی اور ان کی ایک نصیحت مجھے آج تک یاد ہے۔ اسلام آباد میں پی ایف یوجے کے اجلاس کےبعد شام کو میںان کے کمرے میں گیا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اخباری کارکنوں کی تنظیم ایپنک کے چیئرمین عبدالقدوس شیخ اور برنا صاحب بھی موجود تھے۔ انہوں نے انتہائی شفقت سے مجھے اپنے پاس بلا کر پہلے تو سیاسی معاملات پر گفتگو کی پھر بولے، ’’دیکھو ہم لوگوں نے تواپنی زندگی گزار لی تاریخ ہماری جدوجہد یا آزادی صحافت کے لیے جو تھوڑا بہت کام کیا ہے کو کیسے رقم کرے گی وہ ہم تاریخ پر چھوڑتے ہیں بس تمہیں میری ایک نصیحت ہے اور میں تمہارے خاندان کو جانتا ہوں، کبھی صحافتی اصولوں اور ذمہ داری کا راستہ نہ چھوڑنا۔ حکمرانوں سے دور رہنے میں ہی بہتری ہے‘‘۔
جمہوریت، سیاست اور صحافت تینوں ہی آج تنزلی کا شکار ہیں۔ صحافت اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے مگر جب سویلین حکمران ہی صحافت پرکاری ضرب لگا رہے ہوں تو پھر جمہوریت کیسے مضبوط ہو سکتی ہے۔ کبھی ’غیر ذمہ داری‘ کے نام پرتو کبھی ہتک عزت کے قانون کے نام پر صرف صحافت ہی نہیں جمہوریت بھی ’’انڈر کنٹرول‘ ہے اور بدقسمتی سے سہولت کار یہی جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاستدان ہیں۔ حکمراں کوئی ہو حکومتوں کی ایک ہی ’زبان‘ ہوتی ہے اپوزیشن میں کچھ اور حکومت میں کچھ۔ اسی لیے ہماری ریاست اور حکومت عثمانی صاحب جیسے کھرے لوگوں سے خوف زدہ رہتی تھی اسی لیے برنا صاحب اور عثمانی صاحب کی وفات کے بعد بھی ان کی ’تلاش‘ جاری رہی اور آخرمیں مدتوں بعد ’فائلیں بند‘ کی گئیں۔
بقول علی احمد خان ’’اخلاقیات اور دیانتداری کے جو معیار انہوں نے قائم کیے ان پر پورا اترنے کیلئے جس لگن اور جذبے کی ضرورت ہونی چاہئے اسکی کچھ کمی محسوس ہوتی ہے‘‘۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ مجھے دوباتوں پر یقین ہے روزی روٹی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرے موت برحق ہے اور جب یہ دونوں ذمہ داریاں اللہ کو سونپ دیں تو آپ اور کچھ نہیں تو ’’نڈر‘‘ تو ہو سکتے ہیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔