nojawan sahafi ka tez khoon

صحافت میں رحمان صاحب نہیں تو کچھ نہیں۔۔

تحریر: کشور ناہید۔۔

تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں‘‘۔ اس ایک سال میں ہمارے سب سے محترم اور سب سے زیادہ اس زمانے میں سچ بولنے اور لکھنے والے آئی۔ اے رحمان صاحب بھی چلے گئے۔ پہلے میں نے کوئی تاریخی بات پوچھنی ہوتی تو اشفاق سلیم مرزا کو فون کرتی تھی، کوئی سیاسی اور صحافیانہ حوالہ تلاش کرنا ہوتا تو رحمان صاحب سے پوچھتی تھی۔ کوئی نئی ادبی تحریک، ناول یا شاعر کے بارے میں پوچھنا ہوتا تو میں ڈاکٹر آصف فرخی کو فون کرتی تھی۔ آج میں خود کوسیاسی، تاریخی اور ادبی طور پر مکمل یتیم سمجھ اور محسوس کررہی ہوں۔

پاکستان میں صحافت، فلم اور ادب پر متوازن گفتگو کرنے والا شخص، جس نے فیض صاحب، مظہر علی خاں، سبط حسن، سجاد ظہیر، طاہرہ مظہر علی، عزیز صدیقی اور کئی نسلوں کے صحافیوں کو رپورٹ بنانی، تحقیق کرنا اور صحافت کی اخلاقیات سکھائیں۔ جب یہ سب سنسر شپ کے دور میں روزگار سے آزاد کردیئے گئے۔ پھرامین مغل یاد کرتا ہوگا کہ کس طرح ویو پوائنٹ کے چھوٹے سے دفتر کی ایک میز کے چاروں کونوں پر مسٹر فیض، رحمان صاحب، عبداللہ ملک اور امین مغل بیٹھے کام کرتے تھے۔ پھر ایسے عالم میں نوکری سے باہر ہوئے صحافیوں نے اپنااخبار آزاد نکالا۔ اس میں سارے صحافیوں اور ادیبوں نے بھی رضاکارانہ خدمات پیش کیں۔ رحمان صاحب تو بھٹو کے زمانے میں فلم اکیڈمی بنارہے تھے۔ وہ دور ختم ہوا تو عاصمہ کے ساتھ انسانی حقوق کمیشن کی بنیاد ڈالی۔ مسز فیض کے پیر پر پلستر تھا اور وہ گلبرگ میں اوپر سیڑھیاں چڑھ کر جاتیں اور رضاکارانہ کام کرتی تھیں۔ جب ایک دفعہ رحمان صاحب اسلام آباد میں تھے اور انہیں ہلکا سا اسٹروک ہوا تھا۔ مجھے جب پتہ چلا تو بھاگی بھاگی اسپتال پہنچی، بیڈ پر رحمان صاحب اور عاصمہ بیٹھے ہنس رہے تھے۔ فالج سے انکا ایک ہاتھ ذرا سا متاثر ہوا تھا مگر ان کے شب و روز کے کاموں میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ ایک دن لاہور میں، دوسرے دن نیپال، تیسرے دن بنکاک، پھر کراچی، پھر اسلام آباد۔ یہ نوے سالہ شخص تھکتا ہی نہ تھا۔ ہمیشہ ہنستے ہوئے اور نئے ولولے کے ساتھ گفتگو چاہے انگریزی میں ہو کہ اردو میں، حوالوں، شعروں اور فلسفے سے مرصع ہوتی تھی۔

پاکستان تو ماشاﷲ ڈکٹیٹروں سے مالا مال ہے۔ رحمان صاحب نے کبھی ان سے ملاقات کی اور نہ ان کے بلاوے پر کبھی گئے۔ انسانی حقوق ویسے ہی ہمارے ملک میں کم کیا نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بین الاقوامی کانفرنس میں جاکر ان مسائل اور مشکلات کو اٹھاتے تھے۔ مگر ملک کو کبھی رسوا نہ کیا۔ ابھی تک اخباروں میں سخت موضوعات پر لکھتے تھے۔ آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ میری طرح، وہ بھی آرٹیکل ہاتھ سے لکھتے تھے۔ عالمی سطح پر اگر کسی صحافی کی عزت تھی تو وہ رحمان صاحب تھے۔

مجھے یہ عزت ملی کہ چاہے روس گئے کہ بنگلہ دیش، چاہے انڈیا اور نیپال اور سری لنکا، عاصمہ کے گروپ میں ہم سب ہوتے تھے۔ پاکستان اور ہندوستان کے سربراہوں کو بہت لڑنے اور دشمنی کا شوق ہمیشہ سے رہا ہے۔ اس جلتی ہوئی آگ پہ امن کی پھوار کی خاطر، ڈاکٹر مبشر حسن اور آئی۔ اے رحمان نے پاک انڈیا دوستی فورم بنایا تھا۔ ایک سال پاکستانی انڈیا جاتے، ایک سال ہندوستانی پاکستان آتے تھے۔ ہمارے ساتھ نوجوان، پروفیسر، بزنس مین اور بہت سی خواتین جاتی تھیں۔ لندن جاتے، امین مغل کے ہاں محفل جمتی۔ ہمراز احسن بھی اور دوسرے صحافی بھی شامل ہوتے، نیویارک میں حیدر اور انڈیا میں تو اتنے مہربان اور ان کے معتقد تھے کہ ہمیں ان کے ساتھ جانے پہ فخر ہوتا تھا۔ ضیاالدین صاحب، اب بولنے کے لیے آپ ہی رہ گئے ہیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔

ماہرہ خان نے آخرکار خاموشی توڑ دی۔۔
social media marketing
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں