تحریر: منیر عقیل انصاری۔۔
صحافت میں پیراشوٹرز آگئے ہیں اور وہ لوگ صحافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں در اصل وہ اپنے اہداف پر کام کرتے ہیں اور ایسے صحافیوں کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں جس وجہ سے اصل صحافت اب ختم ہوتی جارہی ہے۔ اب صحافت میں کوئی پراپرٹی ڈیلر ہے وہ کسی اخبار کا چیف ایڈیٹر ہے تو کوئی اسکولوں کی چین چلانے والا ہے تو کوئی گھی ملز والا ہے وہ کسی چینل کا مالک بنا ہوا ہے ،ایسے لوگ کسی مشن کے لیے نہیں ہوتے ہیں بلکہ صحافت کو اپنی انشورنس پالیسی کے طور پر لیتے ہیں جس سے ان کی بچت ہوسکے یہ ہے اصل وجہ جس کی وجہ سے صحافت اب مشن نہیں رہ گیا ہے۔ آج سے 5 سال قبل میڈیا آزاد تھا اس پر پابندیاں کم تھیں لیکن آج کے دور میں پابندیاں زیادہ ہے لوگوں کو لکھنا اور بولنا مشکل ہورہا ہے۔ ان خیالات کا اظہارپاکستان کے معروف سینئر ٹی وی اینکر، تجزیہ کار، کالم نگار، شاعر، دانشور، ڈراما نگار، سابق بیوروکریٹ اور کئی کتابوں کے مصنف اوریا مقبول جان، پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی، معروف ٹی وی اینکر ، تجزیہ کاراور کئی کتابوں کے مصنف ناصر بیگ چغتائی اورسماء ٹی وی سے وابستہ سینئر پروڈیوسر و سینئر صحافی عثمان آرائیں نے جسارت کی جانب سے پوچھے گئے سوال کہ اب ہماری صحافت مشن کیوں نہیں ہے؟ کے جواب میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اوریا مقبول جان نے کہا ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی برس سے اخبارات و جرائد اور اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرونک میڈیا سارے کا سارا آج ایک کارپوریٹ کلچر کی ملکیت ہو گیا ہے، صحافت اسی وقت تک مشن رہی جب تک اخبار نکالنے والا یا اخبار کا ایڈیٹر دونوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا تھا ،بلکہ جو لکھاری تھا وہی اخبار نکالتا تھا بے شک اس کو اس میں تھوڑے سے پیسے خرچ کر کے تھوڑی سی صورتحال میں اخبار نکالنا پڑے، اب آپ دیکھیں گے کے بڑے بڑے نام جو تھے جو کبھی ایک زمانے میں ادیب ہوتے تھے شاعر ہوتے تھے وہی لوگ ہوتے تھے کہ جو اس زمانے میں اخباروں کے ایڈیٹر بھی ہوا کرتے تھے جیسے مولانا ظفر علی خان، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر یہ کیسے کیسے لوگ تھے مولانا مودودی خود انہوں نے ترجمان القرآن کے ایڈیٹر ی کی تھی عبدالکلام آزاد تھے یہ کیسے کیسے لوگ تھے جو اخبارات کے ایڈیٹر ہوتے تھے اور افلاس اور غربت کے ساتھ اپنا رسالہ نکالتے رہتے تھے اب تو یہ ہے کے کوئی پراپرٹی ڈیلر ہے وہ کسی اخبار کا چیف ایڈیٹر ہے تو کوئی اسکولوں کے چین چلانے والا ہے تو کوئی گھی کے ملز والا ہے وہ کسی چینل کا مالک بنا ہوا ہے تو ظاہر بات ہے کے ایسے لوگ کسی مشن کے لیے نہیں ہوتے ہیں ایسے لوگ صحافت کو اپنے انشورنس پالیسی کے طور پر لیتے ہیں جس سے ان کی بچت ہوسکے یہ ہے اصل وجہ جس کی وجہ سے صحافت جو ہے اس میں اب مشن نہیں رہ گیا ہے۔ نا صر بیگ چغتائی نے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں مشن دیکھنا ہوگا کیوں ہر کسی کا مشن مختلف ہوتا ہے کہ اس کا مشن کیا ہے اگر ان کا مشن کشمیر ہے تو کیا ہماری اور ان کی صحافت اس مشن کے گرد گھومے گی کیا کشمیر کو جو مقبوضہ کشمیر ہے ان کا مقصد اس کو آزاد کرانا ہے اور آزاد کشمیر کو ہڑپ کرنا ہے کیا یہ مشن ہے ۔مولانا مودودی مرحوم کا اپنا اخبار تھا مولانا کے اداریے ہیں اگروہ پڑھیں آپ تو وہ بھی ایک مشن کے تحت ہوتے تھے وہ بھی ایک کاز ہے، ظفر علی خان صاحب کا اپنا انداز تھا لکھنے بولنے اور پڑھنے کا اچھا یہ جو میں آپ سے بات کررہا ہوں پرانے زمانے کی جس کو ہم پرانا زمانہ کہتے ہیں وہاں پر اردو بھی مختلف ہے لہجہ بھی مختلف ہے وہاں پر انداز تحریر بھی مختلف ہے وہاں محاورے بھی مختلف ہے اور یہ سب کچھ لکھنے والے کی اپنی شعور اور سیاسی ملان اور اپنی ترجہات کے مطابق ہے لکھنے والا اپنی لکھائی میں یہ کہتا ہے کے میں قوم کے حق میں لکھ رہا ہوں لیکن ضروری نہیں کے قوم بھی اس کی لکھائی سے متفق ہو اب جو صحافت ہے دنیا بھر کی وہ کئی سمیت میں بٹی ہوئی ہے ایک حصہ کسی کی حمایت کررہا ہے اور دوسرا حصہ کسی کی مخالفت کررہا ہے اور تیسرا حصہ صرف ابلاغ کررہاہے میں ان لوگوں میں شامل ہوں جو اگر مضمون لکھتے ہیں یا ٹی وی پر بولتے ہیں تو اپنی رائے دیتے ہیں ان کو اپنی رائے دینے کا حق ہے انہوں نے کہا کہ صحافت کل بھی مشن تھا لوگوں تک پہنچنے کا اور آج بھی مشن ہے لوگوں تک پہنچے کا پہلے آپ اپنی ذاتی رائے پہنچایا کرتے تھے آج آپ ذاتی رائے کے ساتھ ساتھ اجتماعی رائے اور عوام کی رائے بھی پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اب اس میں کتنا اخلاص ہے اس پر میں اور آپ بحث کرسکتے ہیں میں سمجھتا ہوں آج سے 5 سال قبل میڈیا آزاد تھا اس پر پابندیاں کم تھیں لیکن آج کے دور میں پابندیاں زیادہ ہیں، لوگوں کو لکھنا اور بولنا مشکل ہورہا ہے میرا خیال ہے کے صحافت اگر مشن تھا تو اس کے مقاصد ضرور تھے اگر صحافت کے ساتھ کھلواڑ کریں گے تو یہ صحافت نہیں کچھ اور کہلائے گا۔ عثمان آرائیں نے کہا کہ صحافت مشن ہے اور رہے گا لیکن چند صحافیوں کے لیے جو صحافت پریقین رکھتے ہیں اور وہ صحافی نشانے پر رہتے ہیں کبھی سیاستدانوں، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا مالکان کے مقاصد پورے نہ کرنے کی وجہ سے کیونکہ وہ صحافی صحافت پر سمجھوتا نہیں کرتے ہیں۔اسکے علاوہ صحافت میں پیراشوٹرز آگئے ہیں اور وہ لوگ صحافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں در اصل وہ اپنے اہداف پر کام کرتے ہیں اور ایسے صحافیوں کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں جس وجہ سے اصل صحافت اب ختم ہوتی جارہی ہے۔(منیرعقیل انصاری)۔۔