sahafat mein bhi system ka raaj

صحافت میں بھی سسٹم کا راج

تحریر: آصف علی سید

جب بات شروع ہو ہی چکی ہے تو اس کو مزید آگے بڑھاتے ہیں، معلوم ہے بھائی بہت سے لوگوں کو غصہ بھی آرہا ہوگا لیکن کیا کریں سچ تو یہی ہے نا۔

 تو ہم نے بات کی تھی کہ ہمارے ملک میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو اس نہج پر پہنچانے والے کوئی اور نہیں ہمارے اندر ہی موجود کالی بھیڑیں ہیں، وہ کہتے ہیں نا کہ اپنی بوٹی کی خاطر کسی کا بکرا قربان کردو۔۔ بالکل اسی طرح ہمارے انڈسٹری میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو اپنی نوکری بچانے کےلیے درجنوں لوگوں کے روزگار سے کھیل جاتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ پھر ان کا حشر بھی خراب نہ ہوتا ہو۔۔ لیکن فی الحال وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ دیکھا کیسے مالک کو شیشے میں اتار کر اپنی نوکری تو بچالی،

چند اداروں کے علاوہ میڈیا کے زیادہ تر ادارے نان پروفیشنل مالکان چلا رہے ہیں. جس شخص کا صحافت سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہوتا وہ ایک صحافی کو صحافت سکھا رہا ہوتا ہے اور ہمارے لوگ بھی جی حضوری میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ وہ ہی اصل صحافی ہیں۔

ایک اور مسئلہ ہماری انڈسٹری کا جو بہت اہم ہے وہ ہے لابنگ سسٹم۔دیکھا یہاں بھی سسٹم آگیا نا!

پسند نا پسند، میرا بندہ، میری ٹیم۔۔۔۔۔ یہ سسٹم معلوم نہیں کس نے بنایا ہے لیکن اس پر بات آج تک کسی نے نہیں کی

بات تو اس حد تک آگے بڑھ چکی ہے کہ اب تو اپنے مسلک اور اپنی قوم والوں کی الگ لابی بھی بن چکی ہے۔ مطلب کسی ادارے میں ایک مسلک اور زبان سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہوگئی تو اب کسی دوسری زبان اور مسلک والے کو آنے نہیں دینا اور جو پہلے سے موجود ہیں انھیں نوکری سے نکلوانا مقصد بن چکا ہے۔

اگر آپ کسی لابی کا حصہ نہیں ہیں تو آپ کو نوکری ملنا تو دور کی بات اگر نوکری کررہے ہیں تو آپ کو کام بھی نہیں کرنے دیا جائے گا۔

لابی سسٹم کے چکر میں نااہل، فیلڈ میں بدنام اور کرپٹ لوگ بھرتی کرلیے جاتے ہیں اور پھر شروع ہوتا ہے دھندا۔۔۔۔

 اب یہ دھندا کیسے ہوتا ہے ویسے تو سب لوگ جانتے ہی ہیں لیکن کوئی اس پر بات نہیں کرتا،، لیکن آج ہم بات کریں گے۔

صحافت کی آڑ لے کر اور ایک کارٹل بنا کر مکروہ دھندے کیے جارہے ہیں،،،

یہ کارٹل سامنے دکھائی دیتے ہیں اور دھڑلے سے کام کررہے ہوتے ہیں بغیر کسی شرم ، حیا اور لحاظ کے،

ایک کارٹل میں صحافی کے روپ میں چار لوگ ہوتے ہیں تو دوسرے میں دس بارہ افراد پر مشتمل پورا گینگ ہوتا ہے

اب تو ایسے گینگز نے اپنے نام بھی رکھ لیے ہیں اور اسی نام سے پہچانےجاتے ہیں۔

یہ گینگز رپورٹنگ کے ہر شعبے میں موجود ہیں اور اپنے اپنے شعبے میں دھندا کررہے ہیں، کرائم، ایوی ایشن، ہیلتھ، سیاسی، کورٹ، سفارت خانوں، شوبز، کامرس اور دیگر کچھ رہ گئے ہوں تو وہ بھی شامل ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ہر شعبے میں موجود گینگ نے اپنے شعبے سے متعلق اداروں کواپنے گینگ کے اراکین کے نام بتا رکھے ہیں کہ بس یہ لو گ ہی ہیں جو نمائندگی کرتے ہیں آپ ہم سے ہی بات کریں باقی ہم دیکھ لیں گے،ان گینگز کے بعض کارندے ایسے بھی ہیں جو کسی ایونٹ پر جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ انھیں اہمیت نہیں دی جارہی تو وہ کسی بھی معمولی سے بات پر چیخنا اور شور مچانا شروع کردیتے ہیں جس سے میزبان بوکھلا کر ان کی طرف ہی متوجہ رہتا ہے اور گینگ کا کام ہوجاتا ہے۔

افسران اور سیاستدانوں کی بڑے ہوٹلوں میں دعوتیں کرنا بھی اب ایسے گینگز کی جانب سے عام سی بات ہوچکی ہے۔ جس کامقصد آپ اچھی طرح سمجھتے ہوں گے۔ان گینگز کی دیکھا دیکھی صحافت کے دیگر شعبوں میں موجود لوگوں نے بھی سوچا کہ جب یہ والے گینگ بناکر کام کررہے ہیں تو ہم کیوں پیچھے رہ جائیں۔۔( آصف علی سید)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں