تحریر: مظہر عباس ۔۔
ایک زمانہ تھا جب ’گھٹن‘ کے ماحول میں لکھنے کا اپنا ایک مزا تھا۔ سرکاری افسران بھی پریشان ہو جاتے کہ کیا سنسر کریں، کیا جانے دیں؟ اچھے لکھاری خوبصورت انداز میں بات عوام تک پہنچا ہی دیا کرتے تھے۔ چند ایک کو چھوڑ کر انگریزی اخبارات اور رسائل پر دبائو کم ہوتا تھا۔ اُردو والوں کی خیر نہیں تھی اور وہی خاص نشانہ تھے۔یہ نہ ٹک ٹاک کا زمانہ تھا اور نہ ہی ’ٹاک شوز‘ کا۔ جب محدود سرکولیشن والے اخبارات برداشت نہیں تھے تو آج کروڑوں کی تعداد میں دیکھے جانے والے چینل اور سوشل میڈیا کیسے برداشت ہو سکتا ہے؟ اب یہ ہائبرڈ وار ہے یا ففتھ جنریشن وارطاقت ور میڈیا کو طاقت سے دبائو میں لانے کا عمل جاری ہے۔بات سیاست کی ہو یا صحافت کی، اگر سوچ پر ہی پہرے ہوں تو آگے صرف ’بند گلی‘ ہی رہ جاتی ہے۔
ہمارے آج کے ڈرامے بہت معیاری نہیں جیسا کہ 60 اور 70 کی دہائی میں ہوتے تھے مگر جس انداز میں سنسر کی قینچی چلتی ہے، اُس نے ڈرامہ انڈسٹری کو بھی متاثر کیا ہے۔ سینما ویسے ہی تباہ ہے۔ لہٰذا کوئی بھی میدان ہو بظاہر ہر شعبہ زوال پذیر ہے مگر ہم سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔آج کا دور شوکت صدیقی کے’خُدا کی بستی‘ یا منٹو نہ سہی، کمال احمد رضوی یا انور مقصود کا نہ ہو مگر اچھے لکھنے والے اب بھی موجود ہیں مگر لکھنے کی آزادی تو حاصل ہو۔ آج کوئی جوشؔ، فیضؔ یا جالبؔ نہ سہی پھر بھی لوگ کھل کر بات کرنے کی کوشش تو کرتے ہیں۔ زمانہ بدل گیا ہے نہ بدلا تو زور زبردستی کا کلچر۔ پابندی کبھی قومی مفاد کے نام پر لگ جاتی ہے تو کبھی کسی اور نام پر۔ آزادی اور ذمہ داری کا تعین بھی پابندی لگانے والے کرتے ہیں اور یہیں دال پوری کی پوری کالی نظر آتی ہے۔
کبھی پیمرا کا استعمال تو کبھی ایف آئی اے کا یا پھرنا معلوم افراد۔اب مجھے نہیں پتا کہ جیو ٹی وی کے سینئر رپورٹر علی عمران 22 گھنٹے کس کے پاس رہا مگر یہ تو طے ہے کہ لے جانے والوں کو اُس کی صحافت سے پریشانی تھی۔ ایسے میں لاپتا افراد کے گھر والوں پر کیا گزرتی ہے وہ تو وہی بہتر بتا سکتے ہیں، مگر اس شہر کراچی میں کچھ پتا نہیں ہوتا، کون لے گیا ہے اور کیوں؟ ﷲ کا شکر ہے کہ وہ خیریت سے واپس آ گیا۔یہ بھی قابل اطمینان بات ہے کہ میڈیا نے مثالی نظم و ضبط اور اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ اگر یہ اتحاد کسی عملی شکل میں سامنے آ جائے تو بڑی بڑی مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیراعظم نے اس واقعہ کا نوٹس لیا اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے۔ دیکھتے ہیں اِس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے ایک اور سینئر صحافی مطیع ﷲ جان کے اغوا کی تو ویڈیو بھی موجود ہے مگر جو رپورٹ آئی جی اسلام آباد نے اعلیٰ عدلیہ میں جمع کرائی ہے، اُس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اتنے شواہد کے بعد بھی شناخت نہیں ہو سکی اور سیف سٹی کیمرے بھی نصب نہیں تھے۔
اغوا ہو تو ایسا۔ میرے خیال میں جتنی محنت ہمارے اعلیٰ حکام اور ادارے کسی کو پابند کرنے، اُٹھانے یا سوالات کرنے میں لگاتے ہیں، اُس سے کم محنت لوگوں کو سچ بتانے میں لگائیں تو شاید یہ سارے معاملات بہتر انداز میں حل ہو جائیں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے جہاں خبر چُھپ نہیں سکتی۔ کسی کی تقریر پر پابندی لگائیں گے تو وہ دُوسرے ذرائع سے لوگوں تک پہنچ جائے گی اور شاید اور زیادہ لوگ تجسس سے سُنیں۔
ایک وہ زمانہ تھا کہ پاکستان میں کسی ہنگامے یا ہڑتال کی خبر کے لیے لوگ رات آٹھ بجے نشر ہونے والے بی بی سی کے بلیٹن کا انتظار کرتے تھے۔ اُسی کی خبر پر اعتبار کرتے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کے مقابلے میں صحافت میں وہ چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ مدیر کا ادارہ بھی ختم ہوگیا ہے اور پھر سوشل میڈیا میں تو آپ خود ہی صحافی ہیں اور خود ہی مدیر مگر مکمل پابندی کبھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ یہ انتظامیہ کے لیے آسان طریقہ تو ہو سکتا ہے مگر ایسے میں جھوٹی خبروں کا رُجحان بڑھ جاتا ہے۔آپ میں سے بہت سوں کو یاد ہوگا جب جنرل ضیاء کے دور میں وی سی آر پر انڈین فلمیں آنا شروع ہوئیں۔اِس کاروبار کو غیرقانونی قرار دیا گیا مگر ملک کی ہر مارکیٹ میں یہ چلتا رہا۔ اِس نے ایک نشہ کی صورت اختیار کرلی تھی۔ جو فلمیں سینما پر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں، وہ گھروں میں دیکھی جانے لگیں۔ ایسا ہی کچھ چند سال پہلے بسنت میلے کے ساتھ ہوا۔ برسوں پُرانا تہوار تھا۔
پورے پنجاب میں اس کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ ہمارے وزیراعظم بھی ایک زمانے میں یوسف صلاح الدین کی حویلی جایا کرتے تھے۔ پھر اچانک فیسٹیول میں پیسہ اتنا آیا کہ حادثات ہونا شروع ہوگئے۔ بجائے اس کے کہ ایسی ڈوریں بنانے والوں کیخلاف کارروائی کی جاتی، میلے پر ہی پابندی لگا دی گئی۔
سیاست کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ 73 برسوں میں غدّاری کی اسناد تقسیم کرتے رہے، پسند اور ناپسند کی بنیاد پر۔ آج بھی ایک سیاست دان دُوسرے صوبے میں جاتا ہے تو صوبہ بدر کر دیا جاتا ہے۔ شاید محسن داوڑ کی تقریر سے اتنا نقصان نہ ہوتا جتنا اِس عمل سے ہوا کہ اُسے کوئٹہ سے واپس بھیج دیا گیا۔ ریاستی بیانیہ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
بہتر قوانین لائیں نا کہ ایسے جن سے پابندیاں لگائی جا سکیں کیونکہ آج کی دُنیا میں خبر چُھپ نہیں سکتی۔ ایک ذریعہ بند ہوتا ہے تو دُوسرا کھل جاتا ہے۔ اچھا ہوا ’ٹک ٹاک‘ پر سے پابندی ہٹا لی گئی اور ساتھ میں چند ضروری شرائط بھی لگا دی گئیں۔ محترمہ شیریں مزاری نے کمال جملہ کہا کہ’ ’جمہوریت میں لوگوں کو لاپتہ نہیں ہونا چاہئے‘‘۔ ابھی تو جمہوریت کی تلاش جاری ہے۔ مل جائے تو قریبی تھانے میں اطلاع کریں۔(بشکریہ جنگ)