سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار ایاز امیر کا کہنا ہے کہ صحافت مری تو نہیں لیکن مفلوج ضرور ہو گئی ہے۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت کا دورتھا لیکن آج کی نسبت پاکستانی صحافت میں تب تھوڑا سا دم خم تھا۔ بہت ساری چیزیں تب بھی ممنوع تھیں لیکن امید زندہ تھی کہ تاریک اور لمبی رات کے بعد صبح ضرور آئے گی۔ اب تو لگتا ہے کہ شاید رات کا موسم ہی رہے‘ لکھنا مشکل‘ بولنا مشکل ‘ بس یوں ہی صحافت نام کی چیز چل رہی ہے۔ دنیانیوز میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔انتخابات کے انعقاد سے ہم جیسے بیوقوف سمجھ بیٹھے تھے کہ کچھ نہ کچھ گنجائش تو پیدا ہوگی ۔ گنجائش تو پیدا ہوئی لیکن اس نوعیت کی کہ حالات دیکھتے ہیں تو ہنسی نہیں رکتی۔اسلام آباد کی ایک دعوتِ افطار تھی جہاں ہمارے پرانے مہربان سعید مہدی صاحب بھی موجود تھے۔ اپنے زمانے میں اُنہوں نے بڑی افسری دیکھی ہے اور ہمارے قائدِ انقلاب جناب نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔چیف الیکشن کمشنر کی دیگر خصوصیات میں یہ بھی ہے کہ وہ سعید مہدی صاحب کے داماد ہیں۔ افطار پر گرم جوشی سے ہم ایک دوسرے سے ملے‘ مجھے دیکھ کر سعید مہدی صاحب ہنس پڑے اورمیری ہنسی بھی نہ رُک سکی۔ مزید کسی تبصرے کی ضرورت نہ تھی۔ کئی اور پرانے دوست بھی ملتے ہیں توایک دوسرے کو دیکھتے ہی ہم ہنس پڑتے ہیں۔آج کل کے حالات کے بارے میں ہنسی کے علاوہ اورکیا کیا جاسکتا ہے۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ البتہ ہمارا رونا ذاتی نوعیت کا ہے۔ یہاں سیاست اور صحافت اگردونوں مفلوج ہوکے رہ گئے ہیں تو ہم جیسے نکمے جو اور کسی کام کے لیے فِٹ نہیں‘ کریں کیا؟ اورکوئی ہنرہمارے پَلے بندھا ہی نہیں ‘ تھوڑا سا چسکا سیاست کے بارے میں تھا اورساری عمر صحافت کی لَت بھی لگی رہی۔ اب جب پاکستان کے حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ افادیت سیاست کی نہ صحافت کی توہم جیسے بیکار امیدکس سے رکھیں؟بہاروں نے ہمارا کیا بیگاڑ لینا ہے۔ لاہور آتے ہیں توپہلا دھڑکا یہ لگا رہتا ہے کہ جن سے فیض لینے آتے ہیں ہمارے ساتھ دھوکہ تو نہ کر یں گے۔ دوسرا دھڑکا مجلس کے حوالے سے ہوتا ہے کہ ڈھنگ کی ہو سکے گی یا نہیں۔ ہماری مملکت کو عارضے تو بہت لاحق ہیں ‘ گننے بیٹھیں توفہرست طویل ہو جائے‘ لیکن ایسا معاشرہ توناقص ہی کہلائے گا جہاں مسائل اتنے پیچیدہ ہو جائیں۔