تحریر: شہاب احمد خان
صحافت یوں تو ساری دنیا میں ایک انتہائی باعزت اور باوقار پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ صحافی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دنیا کو صحیح معلومات پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ صحافت کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جس میں کسی صحافی نے اپنی جان قربان کرکے دنیا کو کسی سچ سے روشناس کرایا۔
ہمارے ملک میں بھی آج کل صحافت نہ صرف ایک باعزت پیشہ بن چکا ہے، بلکہ اس میں ہمیشہ کی طرح ایک پاکستانی ٹچ بھی آگیا ہے۔ پاکستانی ٹچ سے میری مراد وہ اضافی مراعات ہیں جو صحافی خواتین و حضرات ہمارے قابل فخر سیاستدانوں سے حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بدلے میں ان سیاستدانوں کی پروپیگنڈہ مشینری کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ آج آپ کسی بھی صحافی کا کالم پڑھیں یا کسی بھی اینکر کا پروگرام ٹی وی پر دیکھیں، آپ کو فوراً اندازہ ہوجائے گا کہ موصوف کس سیاسی پارٹی کے پروردہ ہیں یا کس سیاست دان کے پے رول پر ہیں۔ ایک میڈیا ہاؤس تو ایک خاص خاندان کو بچانے اور ان کی کرپشن پر پردہ ڈالنے کی دن رات کوشش کرنے کے بارے میں بدنامی کی حد تک مشہور ہوچکا ہے۔
کچھ میڈیا ہاؤسز نے حکومت کو ہر حال میں دفاع کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے انھیں کہیں سے کوئی خاص احکامات ملتے ہیں جس کے تحت وہ ہر حال میں حکومت کا ہی ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔ اکثر صحافی کوئی ایسا خاندانی بیک گراؤنڈ نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ان کی موجودہ مالی حیثیت کو جواز مل سکے۔ کچھ مشہور صحافی حضرات جنہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز پیدل کیا تھا، آج بڑے اور قیمتی گھروں اور گاڑیوں کے مالک ہیں۔
کیا واقعی صحافت اتنی زیادہ کمائی والا پیشہ بن گیا ہے؟ یا پھر اس میں بھی ہمارے معاشرے کی مشہور بیماری موجود ہے، جسے کرپشن کہتے ہیں۔
کرپشن صرف رشوت لینا یا اپنے اختیارات کو ناجائز استمعال کرتے ہوتے فائدہ اٹھانا ہی نہیں ہوتا، بلکہ اپنی موجودہ حیثیت اور صلاحیتوں کو غیر مستحق ہاتھوں کو بیچ دینا بھی کرپشن ہے۔
آج پروپیگنڈہ، ہائبرڈ جنگ کا سب سے موثر ہتھیار بن چکا ہے۔ اس ہتھیار کا سب سے زیادہ استمعال ہمارے ہی ملک کے خلاف کیا جارہا ہے، اور اس ہتھیار کو استمعال کرنے کےلیے سب سے زیادہ موزوں ٹول صحافی ہیں۔ اس لیے اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ کچھ میڈیا ہاؤس بھی غیر ملکی طاقتوں کی سرپرستی میں پھل پھول رہے ہوں۔ اکثر صحافی بھی حکومت کو چیلنج کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرکے تو دیکھے۔
کیا کبھی ہم یہ سمجھ پائیں گے کہ صحافی کا کام صرف درست معلومات ہی عوام تک پہنچانا ہوتا ہے، عوامی رائے کو کسی خاص رخ میں موڑنا ان کا کام نہیں ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)