تحریر: شہزادعلی خان۔۔
بڑے چینلز پر خبر بھی صرف بڑے صحافیوں کی چلتی ہے، یا پھر شاد و نادر کوئی کوئی صحافی اس طرح قتل ہو جائے کہ اچانک سرخیوں میں آ جائے خاص کر جب چینلز کے پاس کوئی سیاسی پریس کانفرنس یا اشتہار چلانے کیلیے نا ہو تو عام علاقائی صحافی کی موت کی خبر کو جگہ مل جاتی ہے لیکن ٹاپ ٹین چینلز میں یہ بھی مشکل ہے، گزشتہ روز لاڑکانہ میں دو صحافی جان سے گئے ایک گڑھی خیرو کے علاقے دودھاپور سے روزنامہ کوشش کے نمائندے ذوالفقار میندرانی جنہیں نامعلوم افراد نے گولیوں سے چھنی کیا، دوسرے نیو نیوز سے وابستہ سینئیر صحافی محمد علی بیہلیم جن کا انتقال آئی سی یو میں رضا ئے الہیٰ سے ہوا دونوں نے ساری عمر صحافت کو دی، بلکہ ذوالفقار میندرانی کے بھائی کا کہنا تھا کہ میرے بھائی کو اسکی صحافت نے قتل کروایا، لیکن سوائے چند اداروں کے بیشتر بڑے اداروں نے خبر تک تو دور کی بات ہے ایک ٹکر تک نہیں چلایا، بس یہ ہے زندگی بھر کی صحافت کا (حاصل کل) 30 سال صحافت کو دینے پر آخر میں یہ تک نصیب نہیں ہوتا کہ چند بلیٹنز میں خبر چل سکے تا کہ معاشرے اور اہلخانہ کو اسکی زندگی میں حاصل کیے گئے صحافتی مقام کی قدر ہوسکے، کیا لواحقین کا اتنا بھی حق نہیں؟ سڑک کے حدثے کی خبر چل سکتی ہے، شدید گرمی رہی بتایا جادکتا ہے، ایکٹریس نے عید پر مداحوں کو کیا پیغام دیا چل سکتا ہے بس جس نے دن رات زنگی کے 30 سال دے دیے صحافت کو اس کا حق ایک خبر بھی نہیں ! زندگی بھر معاشرے کی تہمتیں، دشمیاں، گالیاں کھا کر، کبھی ٹو ٹی پھوٹی اور کبھی بغیر تنخوا کے کام کرنے والے صحافی کو مرنے کے بعد اتنا اعزاز بھی نصیب نہیں ہوتا اس کے لیے دو اچھے بول بول دیے جائیں! اصل صحافی ہی وہ ہے جو فیلڈ میں دن رات مارا مارا پھرتا ہے، نہ عید کی چھٹی نہ کورونا کی نہ کسی کی موت کی صرف جان تب چھوٹتی ہے جب اپنی جان نکلتی ہے افسوس ہے ان تمام اداروں پر جو ان صحافیوں کو عزت و احترام موت کے بعد بھی نہیں دے سکتے، ادارے میں بیٹھے بہت سارے عہدوں پر فائز لوگ بہت کچھ ہوسکتے ہیں، لیکن وہ خود صحافی نہیں ہوتے اور صحافی تنظیمیں اس ملک میں ایک مردار سے زیادہ کچھ نہیں اور چھوٹے علاقے کا زندہ صحافی بھی ایک لاوارث لاش سے زیادہ کچھ نہیں مگر کیا کریں ایک بار صحافی بننے والا شخص مرتے دم تک صحافی ہی رہتا ہے ۔(شہزاد علی خان)۔۔