تحریر: مظہر عباس۔۔
پی ایف یو جے کے سابق صدر نثار عثمانی مرحوم نے ایک بار کہا تھا جمہوری معاشرے میں تنقید، حکومت کی کارکردگی اور پالیسیوں کو افشاکرنے کرنے کی ہر وقت نہ صرف اجازت ہوتی بلکہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔یہی ایک راستہ ہوتا ہے جس کے تحت متبادل قیادت استوار کی جاتی ہے۔ ایک معاشرے میں جہاں رپورٹرز کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں آمرانہ و حاکمانہ دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت وزیر اعظم عمر ان خان کی قیادت میں تحریک انصاف کی حکومت مسلسل تیسری ہے جو عام انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آئی جس سے توقع تھی کہ وہ پریس جیسے اداروں کو مزید مستحکم کرے گی۔
بدقسمتی سے اس کا الٹ ہورہا ہے۔ میڈیا حکومت کے عتاب میں ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ /جیو کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمن کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کوئی علیحدہ سے عمل میں نہیں آئی بلکہ وزیراعظم کی جانب سے میڈیا پر مسلسل حملوں کا حصہ ہے ان کی حکومت کا گزشتہ 20؍ ماہ میں ٹریک ریکارڈ پریس اور صحافی مخالف اقدامات سے عبارت ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آزادی صحافت کے تمام دعوئوں سے یوٹرن لے لیا گیا ہے۔ تمام میڈیا تنظیموں، مالکان، مدیران اور عامل صحافیوں نے گرفتاری اور میڈیا پر مسلسل حملوں کی سختی سے مذمت کی ہے۔بین الاقوامی میڈیا تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) ، رپورٹرزود آئوٹ بارڈرز، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور دیگر تنظیموں نے گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اسے پریس کی زبان بندی قراردیا۔
دہائیوں سے حکمران طبقے نے پریس کا منہ بند اور اسے کنٹرول کرنے پر توانائیاں صرف کیں۔ اسی لئے انہوں نے نو آبادیاتی دور کے پریس مخالف قوانین کو برقرار رکھا۔ پاکستان میں صحافی مشکل ترین دور سے گزررہے ہیں دوسری جانب انہیں اپنی جانوں کے تحفظ کے حو الے سے مسائل کا بھی سامنا ہے جبکہ تحفظ روزگار بھی غیر یقینی ہوگیا ہے۔ایک طرف اگر حکومت ایف آئی اے اور پیمرا کومیڈیا کے خلاف استعمال کررہی ہے اب نیب بھی بظاہر وزیراعظم کو خوش کرنے کے لئے ان میں شامل ہوگیا ہے۔ وزیراعظم نے صرف چند ہفتوں قبل آزاد میڈیا کے بارے میں ناگواری کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے پاکستان سے باہر اپنے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ٹاک شوز دیکھتے اور نہ ہی اخبارات پڑھتے ہیں۔ ایک وقت یہی عمران خان میڈیا کی تعریف کیا کرتے اور کہتےتھے میڈیا ہی انہیں اور ان کی جماعت کو اقتدار میں لایا۔انہوں نے حتی کہ وزارت اطلاعات کو ختم کردینے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ بی بی سی کی طرز پر ریڈیو اور سرکاری ٹیلی وژن کو خودمختار ادارے بنا دیں گے۔ نہوں نے آزاد اشتہاری پالیسی کی بھی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے یو ٹرن لے لیا انہوں نے ان صحافیوں اور اینکرز کو بھی نشانہ بنایا جو ان کے حامی رہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو کتنی اہمیت دیتے ہیں نیب کی جانب سے 1986ء میں قائم کیس میں گرفتاری اس جانب اشارہ ہے کہ حکومت ان کے خلاف کوئی اور کیس نہیں لاسکی۔ایک بار انہوں نے غیر ملکی فنڈنگ کا دعوی بھی کیا تھا ایسے ایک کیس کا انہیں خودالیکشن کمیشن میں سامنا ہے۔ 20؍ ماہ کے دوران موجودہ حکومت کے تحت میڈیا کس طرح زیر عتاب آیا۔ 2016ء سے وزیراعظم عمران خان نے جیو اور جنگ گروپ کے خلاف زہر اگل رہے ہیں جب وہ گروپ اور میر شکیل الرحمن کے خلاف ذاتی طور پر زبانی حملے کرتے رہے لیکن صحافیوں، کیمرا مین اور ڈی ایس این جی کے عملے کو تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
اقتدار میں آنے کے بعد حکومت نے میڈیا پر گرفت مضبوط کرنے کی کوششیں کیں۔ اس کے لئے انہوں نے دو بڑے میڈیا گروپس جنگ/جیو اور ڈان کو چنا۔ ان کی نشریات اور سرکولیشن میں خلل ڈالا اس کےبعد صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور بلاگرز کو گرفتار اور ہراساں کیا اورا ن کے خلاف مقدمات قائم کئے۔ مختلف حربوں سے تنقیدی آوازوں کو دبایا۔نیوز چینلز کو دبائو کا سامنا رہا ان کے شوز بند کردیئے گئے۔ میڈیا کوکنٹرول کرنے کے لئے مختلف حربے آزمائے گئے۔ اول پیمرا، پریس کونسل اور پی ٹی اے کو نئے مجبوزہ قانون کے تحت ضم کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے نام سے نیا ادارہ قائم کیا جاسکے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب فواد چوہدری وزیر اطلاعات تھے۔یہ آئیڈیا روک لیا گیا لیکن ترک نہیں کیا گیا اس کے بعد حکومت نے وزارت داخلہ کے تحت ایف آئی اے کو پی ای سی اے2016ء کے تحت سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں کے خلاف استعمال کیا درجنوں مقدمات در ج ہوئے کچھ کو گرفتار بھی کیا گیا ان میں تقریبا تمام ہی عدالتوں کے ذریعہ رہا ہوگئے ایف آئی اے ان کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکی جس سے ظاہر ہے مقصد انہیں ہراساں کرنا تھا۔
وزیراعظم عمران خان اور ان کی میڈیا ٹیم نے انٹرنیشنل گروپس سمیت سوشل میڈیا رولزاینڈ ریگولیشنز کو متعارف کراکر ہر ایک کو حیران کردیا۔ اس کے لئے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ تک نہیں کیا گیا۔ ملک اور بیرون ملک شدید تنقید کے بعد حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جسے یہ قانون روک لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ر ہا۔ماضی کی طرح موجودہ حکومت نے بھی چینلز کی نشریات روکنے اور انہیں پچھلے نمبروں پر ڈالنے کے لئے پیمرا کو استعمال کیا۔ اسی طرح حکومتی ایجنسیوں نے اخبارات کی تقسیم میں خلل ڈالا۔ دو بڑے میڈیا گروپس کے سرکاری اشتہارات روک لئے گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سیکڑوں صحافی اور اخباری کارکنان اپنے روزگار سے محروم ہوگئے۔
تنخواہوں میں غیر معمولی کمی کردی گئی اور تنخواہوں کی ادائیگی میں مسلسل تاخیر ہورہی ہے بعض میڈیا ہائوسز کے پاس اس کے سوا چارہ نہ رہا کہ مخالفت کالم اور آرٹیکلز کی اشاعت روک دیں۔ کئی بار غیر ریاستی عناصر اور پریشر گروپس کو دھمکیوںا ور ہراساں کرنے کے لئے جیو اور ڈان کے خلاف استعمال کیا گیا۔درجنوں صحافی سوشل میڈیا پر بھی فعال ہیں ان کے اپنے یو ٹیوب چینلز ہیں انہیں ہراسانی کا سامنا کرناپڑا۔ ایک بار سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن نے پی ای سی اے 2016ء کے تحت بلاگرز کو ہدف بنائے جانے سے متعلق سوال پر کہا کہ ایف آئی اے کو وزارت داخلہ کے ذریعہ شکایات ملتی ہیں اورانہیں قانون کے تحت ہدایات پر عمل کرنا پڑتا ہے۔لہٰذا جنگ/جیو کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمن کو 34؍ سال پرانے کیس کا سامنا ہےجس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت چاہے کچھ بھی ہو جنگ اور جیو کے درپے ہے۔ حتی کہ تحریک انصاف حکومت شیریںمزاری جیسے سمجھ دار لوگوں نے میڈیا مخالف اقدامات پر اپنے تحفظات کااظہار کیا اب جبکہ میر شکیل الرحمن کو نیب کے مقدمے کا سامنا ہے جو قانونی راستہ اختیار کرے گا۔
اب وزیراعظم عمران خان کی حکومت اپنے پریس مخالف بیانیہ پر کھل کر عمل کررہی ہے۔ حکومتی پالیسیاں صاف ظاہر کررہی ہیں کہ وہ بڑے میڈیا گروپس کو ہدف بنارہی ہیں۔
ا گر یہ کامیاب ہوگئے تو پاکستان میں صحافت کو سنگین خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ میڈیا کے لئے واحد راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ متحد ہو کر اپنی جنگ لڑے۔ میڈیا ہائوسز کو بھی چاہیئے کہ وہ صحافیوں اور کارکنوں کی جائز شکایات دور کریں جنہیں اپنی تنخواہوں سے متعلق سنگین بحران کا سامنا ہے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ اپنی آزادی کے لئے لڑیں اور اس کا دفاع کریں۔(بشکریہ جنگ)۔۔