تحریر:آصف علی بھٹی۔۔
میرا ملک ایسا بدقسمت ملک ہے جہاں طرح طرح کےسینکڑوں مافیاز نظام زندگی میں مضبوطی سے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ حقیقت ہےکہ ان مافیاز کے ہر دور کے حکمرانوں سے بہت قریبی اور مضبوط تعلقات ہی نہیں ٹھوس بنیادوں پر گٹھ جوڑ ہوتے ہیں۔مافیاز جس وقت اور جب چاہیں سر اٹھا کر عوام کو بلیک میل کرتے ہیں اور حکمران آنکھیں چرا کر صرف مذمت کرتے رہتے ہیں۔ حکومت بخوشی ان کی بلیک میلنگ قبول کرتی ہے تازہ ترین کامیاب واردات اسٹاک و فلورز مافیا نےکی اور بڑے زمیندار وزیر خوراک کو ناک کے نیچے ہوتی واردات کی تیاری کی بو تک نہ آئی۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ 70فیصد سے زائد قابلِ کاشت زمین کا مالک، گندم اور دیگر اجناس کی پیداوار میں خودکفیل ملک کےبدقسمت باسی آٹا ڈھونڈتے دربدر نظر آئے۔ ہائے ری قسمت، ریاستِ مدینہ بنانے کے دعویدار معماروں نے الٹا سردیوں میں روٹیاں زیادہ کھانےکا الزام لگادیا۔اعلیٰ حکومتی ذرائع بتاتے ہیں کہ نئے پاکستان میں امسال گندم کی پیداوار ضرورت سے زائد تھی، پھر ایسا کیا ہوا کہ عوام کو روٹی کے لالے پڑ گئے؟ آٹا نایاب ہو گیا؟
ذرائع کا دعویٰ ہےکہ دراصل ’’مافیا‘‘ سرگرم ہوگیا، حکومتی اشیرباد سے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں گندم کا بڑا ذخیرہ بیرون ملک برآمد کردیاگیا، یعنی ڈیڑھ برس میں مافیا نےخصوصی سرپرستی میں سوا 7لاکھ میٹرک ٹن سے زائد گندم 21سو سے 23سو روپےفی من بیرون ملک بیچ دی۔ آغاز میں کسان سے گندم خریداری کا ریٹ 1180سے 1250روپے فی من رکھا گیا، لیکن ’’پارٹنر‘‘ خریداروں نےمارکیٹ میں فروخت 14سے 16سو فی من کے حساب سے کی۔
اسٹاک مافیا نے کم ریٹ پر لےکر گندم بیرون ملک بیچی اور ذخیرہ بھی کرلی، جو گندم نجی اسٹاک میں تھی وہ من مانی قیمت پرحکومت اور فلور ملز کو اب بیچی جارہی ہے، فلور ملز مافیا عوام کی محرومی میں اضافہ کرتے ہوئے آٹا 28سو سے 3ہزار روپے فی من فروخت کررہاہے، گویا گندم اگانے والا کسان اور کھانے والا دونوں بھوکے مارے جارہے ہیں۔بےچارے محنتی کسان کوکچھ ملا نہ عوام کو لیکن لینڈ لارڈ اسٹاکسٹ، مڈل مین اور فلور مافیا حکومتی چھتری میں لٹ مچا کر ناجائز منافع کے مزے لے چکا ہے۔ اس بحران کی وجہ نہ صادق و امین وزیراعظم بتارہے نہ ان کے پیارے وزیر خوراک سمیت کوئی طاقتور۔
مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق، حیران کن طور پر مشیر خزانہ نے باہر بیچی پاکستانی گندم اب ڈبل قیمت پردرآمد کرنے کا نسخہ پیش کر دیا ہے۔ اگر کوئی سچ بولےتو معاملہ اتنا پیچیدہ اور بحرانی نہیں۔حکومت کے پاس گندم کی پیداوار کتنی ہوتی ہے، کہاں اور کتنی مقدار میں بکتی، کتنی اسٹاک اور کتنی بیچی جاتی ہے سب ریکارڈ موجود ہے، کچھ ہمت اور اختیار ہے تو آٹے کے گھاٹے پر سینہ کوبی کرتے عوام کی تسلی کے لئے ہی سہی ان حقائق کو سامنے لے آئیں تاکہ عوام خود اس مافیا گٹھ جوڑ کا محاسبہ کر سکیں۔ابھی چند روز پہلے اسٹاکسٹ اور مڈل مین مافیا نے ٹماٹر کسان سے انتہائی کم قیمت پر اٹھا کر ذخیرہ کیا نتیجتاً محض دو دن میں ٹماٹر 3سے 4سو روپے فی کلو تک پہنچ گیا، متبادل مشورے مافیا کے ساتھیوں نے متعدد دئیے مگر وجہ بتائی نہ حل بتایا۔ایسے ہی چندماہ پہلے شوگر مافیا نے ملی بھگت سے کسان سے کم قیمت پر گنا خریدا، اپنی شوگر ملز کو بیچا اور شوگر اسٹاک کر کے مارکیٹ سے غائب کردی پھر 10سے 15روپے فی کلو قیمت بڑھاکر بیچی۔
نئے پاکستان کا دور شروع ہوتے ہی ہیلتھ ومیڈیسن مافیا نے سرکاری اسپتالوں کو نجی طریقہ کار لانے کےلئے تباہی کی پالیسی بنائی اور ہر قسم کی دوا کی قیمتوں میں 100 سے 3سو فیصد اضافہ کرکے عوام کو زندہ مار دیا۔آسمان گرا نہ کسی کو پشیمانی ہوئی۔ کیا کریں کہ ایجوکیشن مافیا، ڈرگ مافیا، لینڈ مافیا، ملاوٹ مافیا سمیت کئی چھوٹے بڑے طاقتور مافیاز ہر روز ایک نئےانداز میں عوام کو پریشان اور خوار کرتے رہتے ہیں۔
کوئی ان کا کیا بگاڑے کیونکہ انہی کا تو برسوں سے راج ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ حکمران عوام کی آواز میڈیاکو مافیا گردان کر ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہتے ہیں۔ عرض ہےکہ یہ وہی میڈیا ہے جس نے آپ کو میدان سے اقتدار کی کرسی تک پہنچایا۔آج وہی میڈیا ہر قسم کی بندشوں، تنخواہوں کی عدم ادائیگی، دھونس دھمکی اور بیروزگاری کی چکی میں پس رہا ہے، کئی پیشہ ور صحافیوں کے گھر فاقے چل رہےہیں۔ خدارا سمجھیں، میڈیا ہاؤسز کو چلنے دیں، صحافت کو سانس لینے دیں۔مافیا سے لڑ نہیں سکتے تو ان کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو زندہ رہنے دیں۔ یقین کریں کل یہی آپکی بھی آواز بنےگا۔ حق سچ ہےکہ جہاں قانون اور میڈیا کمزور ہوتا ہے وہاں قانون توڑنے والے طاقتور مافیا بن جاتے ہیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔