media malikaan or bikao media persons

صحافت کو بازاری نہ بنائیں۔۔

تحریر: جاوید صدیقی۔۔

الیکٹرونک میڈیا سے میرا تعلق انیس سو نوے سے ھے جب صرف ایک نجی چینل این ٹی ایم یعنی ایس ٹی این شروع ھوا تھا ان دنوں میں اپنے شوق کے سبب ڈراموں میں کردار ادا کرتا تھا پھر وہ وقت آیا کہ جب سابق صدر اور ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے باقائدہ ایک الیکٹرونک میڈیا کیلئے ریگولر اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا نام پیمرا تھا اس کے ذریعے نجی چینل کا آغاز ھوا سب سے پہلے پاکستان کا سب سے بڑا چینل سنہ دوہزار میں لاؤنچ ہوا اس چینل میں باقائدہ تقرری 18 مارچ 2001 ایک کو بحیثیت وڈیو لائبریرین ھوئی جلد ہی اپنی محنت لگن کریشن کے سبب پروڈکشن میں مقام بنایا اور اسی چینل کے ذیلی مذہبی چینل کی مکمل تیاری کی ذمہداری بھی عائد ھوگئی گوکہ آثھ نو سال پروڈیکشن میں کام کرنے کے بعد اس بڑے چینل کے نیوز میں تبادلہ کرالیا یہاں آؤٹ پٹ اور ان پٹ دونوں جگہوں پر مختلف حیثیت سے کام کیا اور پھر وہ دن بھی دیکھا کہ انیس سال وابستہ ھونے کے باوجود ڈاؤن سائزنگ پر جاب ختم کردی کاش مجھ پر جرم ثابت کیئے جاتے کہ میں نے اس چینل میں فحاشی پھیلائی چوری غبن کیا مالی نقصان پہنچایا ادارے کی ساگ کو شدید نقصان پہنچایا شراب و شباب اور نشے کے فعل میں پایا کاش کاش مجھے بدکرداری کے زمرے میں نکالا جاتا لیکن ادارہ ایسا اس لیئے نہیں کرسکا کہ میں نے پوری جاب میں ایمانداری سچائی نیک نیتی خلوص پر قائم و دائم رہا یہ الگ بات ھے کہ پاکستان میں سیٹھ ازم ھے پروفیشنل ازم کہیں بھی نہیں اسی لیئے انہیں ان جیسے ہی پسند ہیں باقی کیا کہوں آپ خود سمجھدار ہیں۔۔۔ معزز قارئین!! میں اپنے کالم میں بے خوف و خطر سچ و حق لکھتا ھوں الحمدلله میرا ماضی بے داغ ھے اسی لیئے یہ مجھے برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ معزز قارئین!! واٹس اپ ہو یا فیس بک یا پھر دیگر شوشل میڈیا اکثر و بیشتر خاص طور پر پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کے اشتہار ملتے رہتے ہیں کہ ہم سے رابطہ کریں کم قیمت میں صحافتی کارڈ بنوالیں تو کچھ کہتے ہیں ہم آپ کو رپورٹر اور اینکر بنادیتے ہیں ایسے مکروہ لوگوں گروہ کی سخت بندش ھونی چاہئے کیونکہ ایسے جعلی چارسو بیس مقدس پیشہ صحافت کو بدنام کررہے ہیں۔ کئی لوگوں نے شکایت کی کہ جاوید صدیقی صاحب آپ کن اصولوں کے پیچھے چل رہے ہیں یہاں تو لوگ ان پڑھ ہو یا جاہل کوئی بھی بآسانی یو ٹیوب چینل کھول کر سادھ لوح عوام کو لوٹنے کا ایک ذریعہ بنالیا ھے اس بابت کراچی سے کشمیر تک کیوں یوجیز اور پریس کلب اپنا لائحہ عمل سامنے نہیں لاتے کیوں نہیں ایسے جعل سازوں کے خلاف صدارتی آرڈینس جاری کروانے کیلئے اپنی کوشش کرتے ھونا تو یہ چاہئے کہ وہ افراد جو کم از کم دس سال تک کسی بھی یوجیز یا پریس کلب کا ممبر اور ساتھ ہی کسی اے بی سی اخبار یا الیکٹرونک میڈیا کے شعبہ نیوز میں جاب کرچکا ھو صرف اسے اختیار حاصل ھوگا کہ وہ نیوز بلاک ‘ نیوز ویب سائٹ اور نیوز یوٹیوب چینل لاؤنچ کرسکے اسی طرح دیگر شعبے بھی پابند کردیئے جائیں جیسے انٹرٹینمنٹ اسپورٹس کوکنگ سیاحت مذہبی چینلز وغیرہ۔۔۔۔معزز قارئین!! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان بھر کے عہدیداران و ذمہداران یوجیز اور پریس کلب کے اس طرح کے دیگر اشوز پر کام کیوں نہیں کرتے!! یہاں ایک بات اور واضع کرتا چلوں کہ حکومت وقت کو چاہئے کہ وہ پاکستان بھر کے یوجیز اور پریس کلب کا سنہ دوہزار آٹھ سے آڈٹ کرائے جو حکومت رقم دیتی چلی آرہی ھے آیا اس کا استعمال کس طرح کیا گیا اور متاثرین صحافیوں کیلئے کس حد تک امور طے کئے گئے یا پھر صرف گھومنے پھرنے میں اڑاتے گئے۔ یہ آڈٹ کا عمل میڈیا انڈسٹری تک بڑھایا جائے تاکہ تقسیم مشاہرہ اعتدال کی صورت اختیار کریگا تو ہر ایک صحافی بہتر خوشحال زندگی بسر کرسکے گا میری اس تحریر کو باشعور لوگ سمجھ رہے ہیں اور لاشعور عقل کے ناخن تراش رہے ہیں اب دیکھنا یہ ھے کہ ریاستِ پاکستان اس وطن میں کس طرح کی صحافت کو فروغ دینے میں اپنا کس طرح کا کردار ادا کریگی۔۔(جاوید صدیقی)۔۔!!

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں