تحریر: الطاف حسن قریشی
عزیزم رازی سے پہلی ملاقات جناب میاں بشیر احمد کے ہاں غالباً 1983میں ہوئی تھی۔ میاں صاحب ان دنوں محکمہ انہار میں ڈپٹی سیکرٹری تھے جو بعد ازاں ڈائریکٹر جنرل پنجاب ہیلتھ فاؤنڈیشن کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ میں اُن سے سگنیلرز ایسوسی ایشن کے مسائل پر بات کرنے گیا تھا۔ اُنہوں نے بڑے غور سے وفد کی باتیں سنیں اور اُن پر ہمدردانہ کارروائی کا یقین دلایا۔ میاں بشیر احمد سے یہ ملاقات آگے چل کر دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ ایک روز اُنہوں نے اپنے گھر پر آنے کی دعوت دی۔ وہ ان دنوں اعوان ٹاؤن میں رہتے تھے۔ وہاں پہنچا تو ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی جو کھسہ پہنے ہوئے تھے اور اُن کے سر کے بال تیل سے چپکے ہوئے تھے۔ میاں صاحب نے اُن کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ رحمت علی رازی ہیں جن کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ میں جن دنوں بہاولپور میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات تھا، تو وہ مجھ سے ملنے آئے تھے۔ آج کل ایک معاصر روزنامہ سے وابستہ ہیں۔ رازی صاحب کھانا کھا کر چلے گئے۔
اُن کے چلے جانے کے بعد میاں صاحب نے بتایا کہ میں اِن صاحب کی اِس لئے عزت کرتا ہوں کہ وہ ذاتی مفادات کے بجائے اجتماعی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ مجھ سے جب ملنے آئے تھے تو اُنہوں نے اپنے گاؤں کے مسائل کا تذکرہ کیا تھا اور اُنہیں حل کرنے کے لئے کہا تھا۔ میں نے سرکاری افسر کی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اُن کے گاؤں کا دورہ کیا جو بہاولپور سے کوئی تیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ گاؤں والوں کے حالات واقعی دگرگوں تھے۔ میں نے اُن میں ذاتی دلچسپی لی اور بہاولپور سے گاؤں تک پکی سڑک بنوا دی اور کچھ سہولتیں بھی فراہم کر دیں۔ مجھے ان کے مسائل حل کر کے بہت خوشی ہوئی۔اِس ملاقات کے بعد رازی صاحب سے جو عمر میں مجھ سے کوئی پندرہ بیس سال چھوٹے تھے، گاہے گاہے ملنا جلنا ہوتا رہا۔ وہ جناب جمیل اطہر قاضی کے روزنامہ ’جرات‘ میں بطور ایگزیکٹو ایڈیٹر منسلک رہے اور قاضی صاحب سے ادارہ سازی کے فن سیکھتے اور آگے بڑھتے رہے۔ اُن کی اگلی منزل روزنامہ ’نوائے وقت‘ تھی جہاں اُنہوں نے کالم نگاری کا ہنر سیکھا۔ روزنامہ ’جنگ‘ میں اُنہوں نے تحقیقاتی صحافت کو نئے عہد اور اسلوب سے روشناس کرایا۔ رازی صاحب کا ہفتے میں ’درونِ پردہ‘ کے عنوان سے کالم چھپتا تھا جسے قارئین اندر کی بات جاننے کے لئے بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔ اُنہوں نے پنجاب کی سول سیکرٹریٹ کو اپنی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنایا تھا اور حیرت انگیز راز افشا کرتے تھے۔ وہ بڑے سے بڑے افسر کے دفتر میں دروازے کو ٹھوکر مار کر چلے جاتے اور بڑی بےخوفی سے اپنا مدعا بیان کرتے۔ وہ زیادہ تر اپنے دوستوں، شناساؤں اور بےسہارا لوگوں کے مسائل لے کر جاتے اور عام طور پر سرخرو ہو کر لوٹتے۔ یہ سارا کام وہ کسی لالچ کے بغیر سرانجام دیتے اور لوگوں میں خوشیاں تقسیم کرتے جاتے تھے۔
رحمت علی رازی کے کھردرے لہجے میں بڑی اپنائیت تھی، اِس لئے وہ اہلِ صحافت اور اہلِ سیاست میں حددرجہ مقبول تھے۔ سفید شلوار قمیص اور سیاہ واسکٹ اُن کی شخصیت کا لازمی حصہ بن گئے تھے۔ اُنہیں قدرت نے بہت خوبیوں سے نوازا تھا اور سب سے بڑی خوبی اُن کی قناعت پسندی اور ہر لحظہ شکر گزاری تھی۔ اُنہوں نے صحافت کا سفر بڑی تیزی سے طے کیا اور وہ نامہ نگار، کالم نگار سے ایڈیٹر بلکہ پبلشر بن گئے مگر اُنہوں نے پانچ مرلے کے مکان پر قناعت کی۔ اُن کا دسترخوان وسیع تھا اور مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا تھا لیکن وہ فضول خرچی اور دکھاوے سے اجتناب کرتے اور مضافاتی کفایت شعاری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے۔
رحمت علی رازی نے اپنے لئے بلند مقام غیرمعمولی محنت، فرض شناسی اور مستعدی سے حاصل کیا۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی نے اُنہیں سات بار بہترین تخلیقی رپورٹنگ پر انعام دیا۔ یہ اُن کے لئے بہت بڑا اِعزاز تھا۔ وہ اِسی طرح کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ حکومت کے ساتھ گفت و شنید کے لئے جو بھی وفد ترتیب دیا جاتا، رازی صاحب اِس میں ضرور شامل کئے جاتے کہ وہ مؤثر انداز میں بات کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اُنہوں نے اپنا ہفت روزہ ’عزم‘ نکالا تو مجھ سے انٹرویو دینے پر اصرار کرتے رہے۔ میرا موقف یہ تھا کہ ایڈیٹر کو جو کہنا ہوتا ہے، وہ اپنے اداریوں اور مضامین میں کہہ دیتا ہے، اِس لئے اُسے انٹرویو سے گریز کرنا چاہئے۔ ایک دن وہ میرے گھر آئے اور انٹرویو کے لئے کچھ اِس انداز سے اصرار کیا کہ میں انکار نہ کر سکا۔ پھر اُنہوں نے بڑے اہتمام سے ایک ٹیم تیار کی جس نے میری زندگی کا سب سے طویل انٹرویو لیا۔ ہفت روزہ عزم کے بعد اُنہوں نے روزنامہ ’طاقت‘ اور انگریزی میں ’بزنس ورلڈ‘ جاری کیے۔ اُنہوں نے اپنی ایک ایمپائر بنا لی تھی جس کی تعمیر میں اُن کے بھائی، بیٹوں اور مخلص کارکنوں نے بھی حصہ لیا۔
اِس مردِ آگاہ جس نے اپنی شخصیت کا نقش قومی سطح پر ثبت کر دیا تھا اور وہ 14جون کی رات ایک ایسے سفر پر روانہ ہو گیا جہاں سے واپسی اب ناممکن ہے۔ معروف صنعت کار محمد حنیف کی صاحب زادی کی شادی پر لاہور سے نامور صحافی فیصل آباد گئے جن میں رحمت علی رازی بھی شامل تھے۔ وہاں سے رات کے دس بجے واپسی ہوئی۔ رازی صاحب کی کار اُن کے صاحب زادے اویس رازی چلا رہے تھے۔ جب وہ سکھیکی کے قریب پہنچے تو اُنہیں دل کا دورہ پڑا۔ لاہور جلد پہنچنے کے لئے اویس نے گاڑی کی رفتار تیز کر دی تو موٹروے پولیس نے جرمانوں کا دفتر کھول دیا۔ اویس اُنہیں بتاتے رہے کہ میرے والد رحمت علی رازی کو دل کا دورہ پڑا ہے، اِس لئے تیز رفتاری سے لاہور پہنچنا چاہتا ہوں۔ ’فرشتہ صفت‘ پولیس نے اِس اپیل پر کوئی توجہ نہیں دی، چنانچہ دو گھنٹوں کا سفر چار گھنٹوں میں طے ہوا اَور جب وہ اسپتال پہنچے تو روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ رحمت علی رازی کی قبر پر شبنم افشانی کرے اور اُنہیں جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ وہ خود تو جہانِ فانی سے کوچ کر گئے لیکن اپنے پیچھے بلندہمتی، جرأت مندی اور اِدارہ سازی کی ایک درخشندہ مثال چھوڑ گئے ہیں اور اہلِ دنیا کو پیغام دے گئے کہ زندگی پانی کا بلبلہ ہے۔(بشکریہ جنگ)