تحریر: سعداللہ جان برق۔۔
جی توہماراچاہتاہے کہ آئینہ سامنے رکھ کر اپنے چہرے کوتھپڑ مارنا شروع کردیں اوراس وقت تک مارتے رہیں جب تک چہرہ لہولہان نہ ہوجائے اورپھر اس خون میں انگلی ڈبوکرآئینے پر لکھ دیں ’’صحافی‘‘عرف اسٹوپڈعرف احمق عرف مائی فٹ۔یہ خیال ہمیں ایک کتاب ’’صحرامیں گونج‘‘ پڑھنے کے بعد آیا ہے جو سعودی اخباراردونیوزکے کالم نگار جاوید اقبال کے کالموں کامجموعہ ہے ،اس میں ایک کالم ’’یوم صحافت‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں چند ایسے صحافیوں کاذکر ہے جو شارٹ کٹ کے ذریعے بہت اوپر،بہت دوراور بہت بلندی تک پہنچے ہیں،ویسے توساری کتاب اور سارے کالم پڑھنے کے لائق ہیں لیکن چند کالم تو انکشافات کے بھنڈار ہیں جن میں ایک متذکرہ کالم بھی ہے ۔
کالموں کے مجموعے ہم نے کتابی صورت میں بہت پڑھے ہیں اوراخبارات میں بھی پڑھتے رہے ہیں لیکن ’’صحرامیں گونج‘‘ایک منفردکتاب ہے جیسے علامہ عبدالستارعاصم نے نہایت جرات مندانہ انداز میں اپنے ادارے قلم فاونڈیشن سے شایع کیا، ان کالموں میں نہ صرف دنیا کے بارے میں معلومات بہت ہیں بلکہ سچائی بھی بے انتہا ہے ۔ہم چاہیں توکم ازکم مذکورہ کالم ’’یوم صحافت‘‘میں مندرج ان صحافیوں سے متعلق اقتباسات دے سکتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں کریں گے کیوں کہ یہ ایک عام سی بات ہوگئی ہے کہ لوگ صحافت کے راستے سے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں اورکیاکیا کچھ کرلیتے ہیں، اسے بیان کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے اورپھر یہ ڈربھی ہے کہ جاوید اقبال صاحب تو سعودی عرب کے صحافی ہیں جب کہ ہم یہاں ہیں جہاں مگرمچھ بھی ہیں اورمگرمچھوں سے بیر رکھنا کوئی سمجھداری نہیں،اس لیے آپ خود ہی ’’صحراکی گونج‘‘ پڑھ لیں تو آپ بھی ’’شکنتلا‘‘بلکہ شکنتلاؤں کوپہچان لیں گے۔
ان میں ایسے بھی ہیں جو کل تک پیدل جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے اورآج چار چار گاڑیوں اورکئی بنگلوں کے مالک ہیں ۔ایسے بھی ہیں جو آج خبر یا کالم خود نہیں لکھتے بلکہ کئی لوگوں پر مشتمل عملہ رکھے ہوئے ہیں جو ان کی خبروں، کالموں اورٹی وی پروگراموں کے اصل خالق ہیں۔
نام اوردام ان کے ہوتے ہیں اورکام دوسروں کا،ایسا ہی ایک زمانہ ہم پر بھی گزراہے ، جب بھٹوکے ’’سیارے‘‘ مولانا کوثر نیازی کا نزلہ پشاور ریڈیواسٹیشن پر گرا تو سب سے زیادہ نقصان ہمارا ہوا، باقی آٹھ شاعروادیب تو باہرتھے ، ایک ہم ہی روزی سے لگے ہوئے تھے، اس سال عید ہم نے محرم کی طرح گزاری تو پھر روزی کے لالے پڑگئے،باقی کے سارے کام تو ہم پہلے ہی چھوڑ چکے تھے،دیہاڑی، کاشتکاری وغیرہ تو اب وہ نہیں کرسکتے تھے۔
انھی دنوں ہم پر کچھ لوگ مہربان ہوگئے جو نام کے بڑے لوگ تھے چنانچہ ہم لکھتے تھے اوران کے نام سے نشرہوتاتھا، اچانک ہی وہ بڑے مشہورہوگئے، ویسے اگر وہ غزلیں نظمیں اور ڈرامے ہم اپنے نام سے نشر کراتے تو اتنی مشہوری نہ ہوتی لیکن بڑے ناموں کے ساتھ بڑے پاپولرہوتے گئے یہاں تک کہ ان کے مجموعہ کلام بھی منظر عام پر آگئے اور ہم صرف ان بوندوں پر گزارہ کرتے تھے جووہ ہمارے سوکھے ہونٹوں پر ٹپکادیتے تھے،بلکہ بعد میں تو ہمیں یقین ہوگیا کہ ہم پر’’بین‘‘لگوانے میں بھی ان کاہاتھ تھا۔
خیر بتانایہ ہے کہ آج بھی وہی سلسلہ چل رہا ہے،لوگ کالم یامضمون یاکتاب پڑھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں اوران پر لکھے ہوئے نام کی تعریف کرتے ہیں جب کہ محنت کسی اورکی ہوتی ہے۔جاویداقبال نے اپنے اس کالم میں جن ’’جواہرپاروں ‘‘ کاذکر کیاہے وہ صاف پہچان لیے جاتے ہیں کہ وہ کیاتھے اورکیاہوگئے ہیں۔ آپ بھی کتاب پڑھ لیں گے تو ان ’’شکنتلاؤں‘‘ کو پہچان لیں گے۔جاوید اقبال نے آخر میں چند سچے صحافیوں کابھی ذکر کیاہے ۔
مشہورکالم نگارآرٹ بکوالڈ جو واشنگٹن پوسٹ میں اٹھاون سال تک کالم لکھتے رہے تھے اوروہ ایسے کالم ہوتے تھے کہ اوربھی کئی اخبارلے کرشایع کرتے تھے بلکہ دوسری زبانوں کے اخبارات بھی ان کاترجمہ چھاپتے تھے۔ ہم نے ڈائجسٹوں وغیرہ میں اس کے اردو ترجمے بھی پڑھے ہیں لیکن وہ شخص زندگی بھر اپنے آبائی مکان میں رہا ،کوئی جائیداد ،کوئی پونجی نہیں بنائی،اس نے اپنا آخری کالم سات جنوری دوہزار سات کو لکھا تھا اورہدایت کی تھی کہ یہ کالم اس کے مرنے کے بعد شایع کیاجائے ۔اس نے لکھا تھا۔
قارئین کرام ! میں آرٹ بک والڈ آپ سے مخاطب ہوں۔ میں آپ کو مطلع کرنا چاہتاہوں کہ میں مرچکاہوں۔
دنیا کی تاریخ میں طویل ترین عرصے تک مقبول ترین کالم لکھنے والا جب مرا تو ترکے میں کچھ نہ تھا۔ کیاامریکا میں کوئی ایسا نہیں تھا کہ آرٹ بک والڈ کو خرید لیتا،بہت سارے تھے لیکن وہ بکاؤتھا ہی نہیں اورآج ہمارے کئی صحافی، اینکرز اور کالم نگار ایسے بنگلوں میں رہتے ہیں جن کے شیشے کے فرش تلے سات رنگوں کی مچھلیاں تیرتی ہیں، اراضیاں، گاڑیوں کے کارواں اور مدح سرائی میں سیاہ کیے گئے کاغذ کے رم ،بنڈل اور دستے ، وہ دفتر کے اوروہ جو صحافت کی سیڑھیاں چڑھ کر وزیر بنے،امیر کبیر بنے اورسفیر بنے، وہ الگ۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔