تحریر: عارف رمضان جتوئی
نیوز ون کے رپورٹر ایس ایم عرفان انتقال کرگئے. کراچی پریس کلب کے رکن اور ہمارے ایک بہترین ساتھی ہم سے بچھڑ گئے. ان کے انتقال کی خبر ملی تو دل مغموم ہوا. پھر پتا چلا وجہ انتقال ہارٹ اٹیک ہے. گزشتہ کئی ماہ سے نیوز ون میں سیلریز نہیں مل رہیں. یہ صورتحال اب تقریبا صحافتی ہر ادارے کی ہے. عرفان بھائی بھی بہت پریشان تھے. ان کے گزشتہ روز کے واٹس ایپ پر ایک مزاحیہ انداز میں اسٹیٹس تھا. ”ڈیئر سیلری! پلیز کم بیک ٹو سٹے ودھ می! آئی مس یو…”
آپ سمجھ سکتے ہیں اس وقت کی مہنگائی اور پھر اس پر محدود اور میسر سیلری بھی وقت پر نہ ملے تو کرایے دار کو مالک اور بل والے کو ادارے نکال باہر کرتے ہیں. بچوں کی فرمائیشوں کے گلے گھونٹ بھی دیں تو پیٹ کی آگ کا ایندھن بھرنا تو پڑتا ہی ہے آخری کو جینا تو ہے نا. سردی بھی بڑھ چکی ہے، پرانے گرم کپڑے دھوپ لگا کر نکال بھی لیں تو ممکن ہے وہ اب چھوٹے ہوچکے ہوں. ماں باپ سردی میں رات کو سو بھی لیں تو بچوں کے کپ کپانے کو دل کیسے مان لے.
اللہ جانے عرفان بھائی کے حالات ہماری سوچ سے کتنا زیادہ پریشان کن تھے. وہ حالات کی سنگینیوں کو جانتے تھے… پڑھے لکھے بھی تھے… خود کشی کو وہ حرام سمجھتے تھے مگر یہ دل…. اس کا کیا کیا جائے… کبھی تو مان لے مگر ہر بار تھوڑی نا مانتا ہے… بہت تڑپا ہوگا کئی بار سوچا ہوگا جا کر مالکان کا گلا دبا دے مگر پھر اپنی تعلیم اور مہذب ہونا یاد کر کے خاموش بیٹھ جاتا ہوگا. دل ہے نا کب تک… بالآخر زور سے دھڑکا اور ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا.
تدفین کے بعد صحافیوں نے کراچی میں نیوز ون کے ہیڈ آفس پر دھرنا دیا احتجاج کیا. یہ حل ہے تو یقینا یہی کرتے رہنا چاہیے مگر شاید یہ حل نہ تھا نہ ہے. البتہ کچھ نہ ہونے کے لیے یہ کرنا بھی بہت ہے. ضرورت ہے کہ پھر ہم کسی دوست ساتھی کا اللہ نہ کرے جنازہ پڑھنے جارہے ہوں خدارا اس ڈوبتی صحافتی کشتی کو بچانے کے لیے کردار ادا کریں. وہ بھی جو صحافتی تنظیموں کے بڑے ہیں. وہ بھی جو اداروں میں اچھی پوزیشن پر ہیں. وہ بھی جو روز انہیں کیمرہ مین رپورٹرز اور ٹیکنیشنز کے ذریعے ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر بھڑکیں مار رہے ہوتے ہیں.
اللہ ایس ایم عرفان بھائی کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔۔(عارف رمضان جتوئی)۔۔