تحریر: ایاز امیر۔۔
بہت کم عمری سے کتابوں کی طرف دل مائل ہوا۔ سکول میں کچھ تو کھیل کود رہتی تھی لیکن تب بھی پڑھاکو جانا جاتا تھا۔مجھے رشک آتا ہے اُن ساتھیوں پر جنہوں نے کھیل کے میدان میں نام کمایا‘ فٹ بال‘ کرکٹ اور ایتھلیٹکس میں جو آگے آگے ہوتے تھے۔ افسوس رہتا کہ میں اُ ن میں سے نہیں ہوں اور سکول میں ایسے لڑکوں کو جو سپورٹس میں اچھے تھے کوحسد بھری نظروں سے دیکھتا۔میں تنہائی پسند تھا جو کہ اچھی بات نہیں لیکن یہی کیفیت تھی اور چھپتا میں کتابوں کے پیچھے۔
فوج میں مجبوری سے جانا پڑا‘ وہ اس لیے کہ کسی بنا پر کالج چھوٹ گیا تھااور کچھ اور کرنے کو تھا نہیں۔آخر او لیول یا سینئر کیمبرج کا سرٹیفکیٹ لے کر آپ اور کیا کرسکتے ہیں۔یہ ہمارے ملک کا انوکھا رواج ہے کہ او لیول یا ایف اے کیا اور فوج میں چلے گئے‘ پروموشنیں ملیں تو بڑے عہدوں پر پہنچ گئے۔میرا ارادہ پروموشنوں کا نہیں تھا کیونکہ فوج سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ کاکول اکیڈمی میں بھی لیکچر کسی اور چیز کا ہوتا تو پیچھے بیٹھے میں کوئی ناول پڑھ رہا ہوتا۔کمیشن لیااور چھتیس لائٹ میں پہلی پوسٹنگ ہوئی تو فوج کے روزمرہ کے کاموں میں جی بالکل نہیں لگتا تھا۔ وہاں بھی کتب بینی سے گزارہ ہوتا۔کئی بار لکھ چکا ہوں کہ میری فوج کی سالانہ رپورٹیں ساری کی ساری خراب تھیں سوائے 1971ء کی رپورٹ جو جنگ کے بارے میں تھی۔فوج سے فارن سروس گئے اور وہ بھی جلد چھوڑ دی‘ شاید اس لیے کہ سرکاری نوکری جس میں بہرحال کچھ نہ کچھ پابندی لازمی ہوتی ہے دل کو اچھی نہ لگی۔
فارن سروس سے استعفیٰ دے کر گھر آئے تو پھر احساس ہوا کہ ہم نے تو بے روزگاری چن لی ہے۔ کاروباری ذہن تھا نہیں‘ کسی دکان کے کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھ نہیں سکتا تھا‘ سرکاری نوکری ویسے چھوڑدی تھی۔بے روزگاری کا ایک ڈیڑھ سال چکوال گزارااور چونکہ کسی اور چیز کے قابل نہیں تھا تو کتابوں میں وقت گزرتا۔کبھی کبھار شاموں کو وہ شغل کرلیا کرتے جس کا ذکر اخلاقیات کے پیشوائوں اور رہبروں کو برا لگتا ہے۔آمدن محدود تھی اس لیے عیاشی کا کوئی بڑامنصوبہ دسترس سے باہر تھا۔لاہور کا ایک عدد رنگین بازار جس کا ذکر کتابوں اور کہانیوں میں ملتا ہے‘ کا سنا ہوا تھا لیکن ایک تو زمانہ مردِ حق جنرل ضیا الحق کا تھا جب اُن رنگین گلیوں پر آفت آ چکی تھی اور دوم جیب کی حالت اجازت نہیں دیتی تھی کہ گزرے ہوئے زمانوں کے کسی رئیس زادے کی پیروی کرتے۔بے روزگاری کا وہ عرصہ نہایت ہی کٹھن گزرا۔
ایک ہی چیز تھی جو کرسکتے تھے اور وہ اخباروں کیلئے لکھنا تھا۔ صحافت کی طرف گئے تو تب بات سمجھ آئی کہ لازمی نہیں کہ آپ نے چند کتابیں پڑھی ہوں تو آپ کولکھنا آ جائے گا۔جیسے موسیقی کیلئے ریاض ضروری ہوتا ہے‘ لکھنے کیلئے بھی پریکٹس ضروری ہوتی ہے۔کالم لکھنا شروع کیا تو محنت وہ کرتے جو موسیقی کے ریاض میں بڑے بڑے گیانی کرتے ہیں۔بہرحال کالم نویسی میں پڑھائی کا شوق ہی کام آیا۔اب تو ایک عمر بیت چکی ہے صحافت کی پگڈنڈیوں پہ چلتے ہوئے لیکن اللہ کا کرم ہے کہ پڑھائی کا شوق گیا نہیں۔اور اسی نے شاید بچایا ہو اہے۔ہرایک کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں کبھی اچھے دن کبھی برے۔کئی لوگوں کا سہارا تعویذ و مندر ہوتا ہے۔خوش قسمت لوگ ہیں جن کا سہارا عشق ہوتا ہے‘ عشق کسی چیز سے بھی ہو تفصیل میں جانے کی کیا ضرورت۔ہم جو مستند گناہگار ٹھہرے‘ ہمارا سہارا کتابیں رہی ہیں۔غم سے کبھی نڈھال بھی ہوئے توکچھ ٹھہراؤ نصیب ہو جاتا جب ہاتھ کسی کتاب کی طرف جاتا۔اب کچھ مزدوری اور خرچہ کمانے کیلئے لاہور جانا پڑتا ہے لیکن بہت وقت گاؤ ں میں گزرتا ہے۔یہ وقت بھی نہ گزرسکتا اگرکتابوں کا سہارا نہ ہوتا۔
دوسرا سہارا موسیقی کا ہے۔ برا یا مشکل وقت بھی آیا تو موسیقی سے قدرے سکون میسر ہوا۔ا ب بھی لیٹتا ہوں اور نیند نہ آ رہی ہو تو پرانے گانے یا استاد بڑے غلام علی خان کا کوئی راگ سننے کو ملتا ہے تو چند ہی لمحوں میں نیند کی وادی میں چلے جاتے ہیں۔ان دو عادات کی وجہ سے پیسوں کی اہمیت اتنی ہی سمجھی کہ ضروریات پوری ہوں۔پیسوں کی رغبت کبھی جان پہ سوار نہیں ہوئی۔بس اتنے پیسے ہوں کہ مہینے کا خرچہ چل جائے‘ ملازمین کی جو تنخواہیں ہیں وہ پوری ہو جائیں‘ بچے جو مانگیں اُن کو وہ بھیج دیں‘ شام کی مخصوص آرزوئیں جو دل کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں اُن کیلئے پیسہ ہو۔ یہ شوق دل میں کبھی نہیں آیا اتنی بڑی کوٹھی ہو‘ گیراج میں اتنی کاریں کھڑی ہوں۔ایک صاحب ملنے آئے سرگودھا سے‘ کئی پرائیویٹ سکولوں کے مالک ہیں۔گاؤں والے گھر کی بیٹھک میں بٹھایا تو بے اختیار ایک بار نہیں کم از کم چھ بار کہہ اٹھے کہ آپ کی زندگی بڑی سادہ ہے۔پہلے تو مجھے بات سمجھ نہ آئی لیکن جب وہ صاحب رخصت ہوئے تو میں پھر سمجھا کہ وہ شاید توقع کررہے تھے کہ بڑا سامحل نما فارم ہاؤس ہوگا جس کے آگے پیچھے وردی میں ملبوس گارڈ ہوں گے اور گیراج میں بڑی گاڑیوں کی ایک قطار ہو گی۔بعد میں میرے ڈرائیور نے بتایا کہ اُن صاحب کے ڈرائیور میرے ڈرائیور سے پوچھ رہے تھے کہ آپ کے صاحب کی گاڑیاں کتنی ہیں۔جو بیچاری ایک پرانی ٹیوٹا سرف گیراج میں کھڑی تھی اُس سے تو وہ بالکل متاثر نہیں ہوئے۔
تین چیزیں ممکن بناتی ہیں کہ میں گاؤ ں میں رہوں۔میں بڑا زمیندار ہوں نہیں۔تھوڑی بہت جو خاندانی زمین تھی وہ والد صاحب بیچ کر شہر کی طرف چلے گئے تھے۔اُن کا اچھا خاصا کاروباری ذہن تھا اور جو تھوڑے سے پیسے اُنہیں زمین کی فروخت سے ملے ہوں گے انہوں نے کاروبار میں لگائے۔میں پیسے مزدوری سے کماتا ہوں اور اپنی استطاعت کے مطابق گاؤں کے بنگلے کے اردگرد تھوڑی سی زمین خریدی ہے جس میں جب چہل قدمی ہوتی ہے تو میں اپنے آپ کو ملک خضر حیات ٹوانہ جیسا لینڈ لارڈ سمجھتا ہوں۔البتہ مزدوری کی آمدن نہ ہو تو گاؤں میں نہ رہ سکوں‘ خرچے ہی پورے نہ ہوں۔اور دوسری دو وجوہات جو گاؤں میں رہنا ممکن بناتی ہیں اُن کے بارے میں عرض کرچکا ہوں‘ کتابیں اور موسیقی۔
چھوٹی زمینداری ہو تو گاؤں میں رہنا مشکل ہے۔ہمارا بارانی علاقہ ویسے بھی ایسا ہے کہ لوگوں کی چھوٹی چھوٹی زمینداریاں ہیں اور خاندان کے کچھ فرد باہر کی نوکریاں کرتے ہیں جن سے پیسہ جب واپس گاؤں آتا ہے تو رہن سہن کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔میری زمینداری تو اتنی ہے کہ بس تھوڑی سی چہل قدمی ہو سکے اور سال کے دانے پورے ہو جائیں۔جب ملازم گندم کی بوری نزدیک چکی پر لے کرجاتا ہے اور پھر آٹا پسوا کر واپس لوٹتا ہے تو میں کسی مغل شہزادے سے اپنے آپ کو کم نہیں سمجھتا۔پچھلے سال تو اپنا کینولا بھی اُگا لیا تھا جس سے پورا سال تو نہیں‘ چھ آٹھ مہینے احسن طریقے سے چل گئے تھے۔ اس بار پھر تھوڑی سی زمین پر کینولا کی کاشت ہو گئی ہے اور یہی دعا ہے کہ سال کا خوردنی تیل میسر آ جائے۔آج کل جو تیل دکانوں سے ملتا ہے ساڑھے پانچ سو روپے تک پہنچا ہوا ہے اور اُس تیل کا استعمال دل کی بیماریوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
دو نمبری والی مصیبت ہمیں پڑی ہوئی تھی لیکن آفرین ہمارے اُس روحانی پیشوا کو جس کی وجہ سے ہمارا یہ پرابلم بھی ختم ہو گیا ہے۔گندم ہو‘ کینولا اور ضرورت پڑنے پر کیکر کی آگ کے سامنے بیٹھ کر شامیں بھی گزر جائیں تو بھاڑ میں جائیں یہ باتیں کہ ملک کا کیا ہونا ہے۔
اس عمر میں جان چکے ہیں کہ یہاں کچھ نہیں ہونا۔(بشکریہ دنیانیوز)