کراچی (آغاخالد)
تنویر بیگ اپنے عہد کا بڑا کرائم رپورٹر توتھاہی مگر میرے نزدیک اس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ تھی کہ یہ انسانوں کے اس قبیل سے تعلق رکھتاتھا جو غلط یا درست اپنے لیے جس راہ کا انتخاب کرتے ہیں پھر آخری سانس تک اس پر ڈٹے رہتے ہیں میرا اس کا پہلا تعارف ہی چونکادینے والا تھا یہ 1980 کی دہائی کے ابتدائی سالوں کا ذکر ہے روزنامہ اعلان امین الدین بھیا سے مصباح الاسلام نے خرید لیا تھا قبل ازیں مصباح رزنامہ آغاز میں عامیانہ کردار کا رپورٹر تھا وہ اکثر رات گئے “ٹھرا” (دیسی گھٹیاشراب) پی کر صدر کے فٹ پاتھوں پر بے ہوش پڑا ہوتا تھا اس کی رہائش کورنگی سو کواٹرز میں تھی جو کہ اس دور کی انتہائی غریب آبادی سمجھی جاتی تھی اور رات گئے کورنگی جانے والے اسے بھی سہارا دے کر گھر پہنچادیتے پھر ایک بلڈر کی میہربانی سے وہ راتوں رات لکھ پتی ہوگئے تو انہوں نے واٹر پمپ کی چورنگی میں واقع نواز کورٹ کا نچلا حصہ اور میزنائن خرید کر دوتین رہائشی اور تجارتی سستے منصوبوں کا اعلان کیا اور بکنگ سے کروڑوں مزید ہتھیالیے اور اس رقم سے انہوں نے روزنامہ اعلان امین الدین بھیا سے ہفتہ روزہ جمہور عبد الحی سے اور ماہنامہ صورت سید وجاہت علی سے خرید کر الامین پبلی کیشن کے نام سے صحافت کا ایک بڑا گروپ جنگ کے مقابل لا کھڑا کیا اعلان کے پہلے ایڈیٹر محمود شام تعینات ہوے مگر کچھ ہی عرصہ بعد مصباح جیسے نو دولتیے سے نباہ نہ ہوسکنے پر وہ مستعفی ہوگئے اور ان کے بعد اگلی ایڈیٹر شپ میرے استاد سید وجاہت علی کے حصہ میں آئی جو پہلے ہی جمہور اور صورت کے ایڈیٹر تھے قںل ازیں سید وجاہت علی نے مجھے اپنا اسسٹنٹ ایڈیٹر لگوادیاتھا جبکہ اعلان ملنے کے بعد میگزین ایڈیٹر بھی میں مقرر ہوا ہمارا دفتر واٹر پمپ نواز کورٹ کے میزنائن پر تھا نچلے حصہ میں مصباح کے کاروباری معاملات تھے اسی نچلے حصہ کے آخر میں مصباح الاسلام کا اپنا کمرہ اور چیمبر تھا اس کے اپنے دفتر کی بڑی سی ٹیبل اور گھومنے والی کرسی اٹلی سے منگوائی گئی تھی جس کے ان دنوں بڑے چرچے تھے مرزا تنویر بیگ کسی کی سفارش سے سید وجاہت علی کے پاس ملازمت کے سلسلہ میں آئے تو ان سے پہلا تعارف ہوا لمبا قد، دراز زلفیں،مردانہ وجاہت سے بھرپور نپی تلی گفتگو کرنے والے مرزا تنویر بیگ کسی تعارف کے محتاج نہ تھے حریت کے حوالے سے ان کی صحافت کے شہر میں چرچے تھے وہ گنے چنے کامیاب کرائم رپورٹرز میں سے تھے اور بدقسمتی سے ان دنوں بے روزگار تھے 80 کی دہائی میں کراچی میں جنگ ہی پڑھا جانے والا اصل اخبار تھا باقی سارے اخبار تو معمولی اشاعت رکھتے تھے ان میں اعلان تھوڑا سا بہتر اخبار تھا اس کی وجہ پروفیسر توصیف اور بصیر نوید جسے دبنگ صحافی اعلان میں رپورٹر تھے، الامین پبلی کیشنز کی میزنائن پر ایڈیٹر کے دفتر میں تنویر بیگ جتنی دیر بھی بیٹھے رہے سگریٹ بجھنے نہیں دیا وہ چین اسموکر تھے دم توڑتے سگریٹ سے نئے سگریٹ میں جان ڈالتے اور ہونٹوں سے لگاکر بڑا سا کش کھینچ تے پھر منہ آسمان کی طرف کرکے دھوئیں کا مرغولہ اڑاتے پھر خود ہی ہوا میں منتشر ہوتے دھویں کو غور سے نظریں ٹکاکر دیکھتے رہتے میرے لیے دانشورانہ مزاج کے صحافی سے سامنا ہونا انوکھا تجربہ تھا اور میں بڑے غور سے ان کی حرکات سکنات کا مشاہدہ کرہاتھا پھر نیچے سے انٹر کام پر طلبی کی کال آگئی اور وجاہت صاحب انہیں لے کر مصباح الاسلام کے دربار میں پیش ہوگئے ان کے اشارہ پر میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا تھا مصباح کے دفتر میں داخل ہوے تو کوئی بہت ہی حسین و جمیل خاتون پہلے سے مصباح کے سامنے براجماں تھیں سید وجاہت نے تنویر بیگ کا مختصر تعارف کروایا اور کہاکہ میں انہیں اعلان کا کرائم رپورٹر رکھنا چاہتا ہوں یہ ساری گفتگو کھڑے کھڑے ہی ہورہی تھی جبکہ مصباح خود اپنے متکبرانہ انداز میں کرسی پر براجماں تھے اور وہ خاتون بھی، ہمیں نہ انہوں نے بیٹھنے کو کہا نہ ہم بیٹھے بابا تنویر بیگ مصباح کی ٹیبل کے ساتھ لگ کر کھڑے تھے انہوں نے انگیوں میں کسے سگریٹ کا گل سامنے پڑی ایش ٹرے میں جھاڑنے کی کوشش کی مگر دیوار پر لگے پنکھے کی تیز ہوا کے جھونکے نے سگریٹ کے گل کو اچھال کر ٹیبل پر گرادیا مصباح کا رویہ پہلے ہی ناپسندیدہ تھا یہ دیکھ کر تو وہ آگ بگولہ ہوگیا اور چیخ کر وجاہت کو مخاطب کرکے بولا ایسے بدتہذیب شخص کی تم سفارش لے کر آئے ہو میں اپنے ادارہ میں ایک لمحے کو بھی اسے برداشت نہیں کرسکتا پھر وہ بڑے عامیانہ انداز میں بابا کی طرف دیکھ کر چیخا گیٹ آئوٹ۔۔ مصباح کے جارحانہ رویہ پر تنویر بابا بھی اسے مخاطب کرکے تیکھے لہجہ میں بولے ملازمت گئی بھاڑ میں تجھ جیسے فٹ پاتھیے کی اوقات میں اچھی طرح جانتاہوں میں لعنت بھیجتاہوں تجھ پر اور تیری نوکری پر سید وجاہت جو دو طرفہ تنائو کو کم کرنے کی خاطر دونوں کو چپ کروانے کی کوشش کرہے تھے بابا نے ان کا ہاتھ تھاما اور کھینچ تے ہوے دفتر سے نکل آئے ایڈیٹر کے کمرہ میں ہم تینوں موجود تھے مگراچانک پیش آئی صورت حال پر خاموشی ایسی کہ سوئی کی آواز بھی دھماکہ لگے اچانک سید وجاہت علی اپنے مخصوص انداز میں کھل کھلا کر ہنس دیے اور خادم کو آواز دے کر بولے، چائے جلدی لے آ یار تاکہ بابا کا موڈ ٹھیک ہو مگر اس سے پہلے کہ چائے آتی تنویر بابا اٹھ کھڑے ہوے اور نفرت سے بولے اس فٹ پاتھیے کے پیسوں کی چائے مجھ پر حرام ہے وجاہت صاحب، یہ کہ کر وہ وجاہت صاحب کے شدید اصرار کے باوجود چلے گئے کچھ عرصہ بعد ہی مصباح کا زوال ایسا عبرت ناک ہوا کہ الامان والحفیظ زمینوں کے فراڈ کیس میں اس کی گرفتاری کے ساتھ ہی وجاہت علی صورت لے کر الگ ہوگئے اور لیاقت آباد میں دفتر منتقل کرلیا، جمہور حئی صاحب لے گئے اور پاکستان چوک میں اپنے گھر سے نکالنے لگے تو اس وقت مینے تنویر بابا پر ایک مضمون لکھا جو صورت میں شائع ہوا اس کا عنوان تھا، اور ایک سگریٹ کا گل صحافی کی نوکری کھاگیا اس پر بابا شکریہ ادا کرنے صورت کے دفتر آئے اور یوں یہ تعلق باقاعدہ دوستی میں بدل گیا ایک عرصہ بعد 1996 میں تنویر بابا کی کال آئی انہوں نے ملاقات کی دعوت دی ان دنوں وہ نوائے وقت سے وابستہ تھے مگر مجھے کینٹ اسٹیشن پر کینٹ تھانے سے ملحق جگ بھائی گلو بھائی کے ڈیرے پر بلایا جس سے میں واقف نہ تھا وہاں انہوں نے میرا تعارف ریلوے کے ایدھی گل محمد سومرو عرف گلو بھائی سے کروایا اور ان کی سفارش کی کیونکہ ریلوے میں ٹکٹوں کی بلیک کادھندا 90 کی دہائی میں عروج پر تھا اور کراچی میں ریتی بجری کے بعد سب سے بڑا منافع بخش کاروبارسمجھا جاتاتھا گلو بھائی اس لعنت کے خلاف تھے اور میں روزنامہ امت میں تواتر کے ساتھ ٹکٹوں کی بلیک کے خلاف مہم چلارہاتھا گلو بھائی کے پاس اس کالے دھندے کے خلاف ٹھوس معلومات اور شواہد تھے وہ میری مدد کرنا چاہتے تھے یوں ہماری دوستی گلو بھائی سے بھی ہوگئی جو الحمد اللہ ہنوز قائم ہے گلو بھائی کے ڈیرے پر شام گئے کراچی کے صحافیوں کی بڑی تعداد جمع ہوتی جن کے لیے کھانے پینے کے لوازمات کا خیال رکھا جاتاتھا کیونکہ گلو بھائی ریلوے کے سب سے بڑے ٹھیکیدار ہونے کے ساتھ سخاوت میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے جبکہ شہر کے آدھے سے زیادہ صحافیوں کی وہ آنکھ کا تارا تھے کسی کو بھی اندرون ملک جانا ہو گلو بھائی کو صرف ایک کال کرنی پڑتی تھی ٹکٹ تیار چاہے کتنا ہی رش کیوں نہ ہو بابا کے گلو بھائی ہر مرض کی دوا تھے اور تنویر بابا کا تو گلو بھائی سے یک جاں دو قالب والا رشتہ تھا ہمیشہ رات کو وہاں پائے جاتےان میں اور گلو بھائی میں قدر مشترک بلا کا اور عادی مے خوار ہونا تھا ایسے لوگ جو ہمارے نہیں کسی بھی معاشرے میں فٹ نہیں بیٹھتے وہ اپنے لیے تکلیف دہ راستہ کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر سماج کی جانب سے ان کے حصہ میں آئی مشکلات کو وہ بے خودی، محویت اور فنائیت میں مبتلا ہوکر بھلانے کی کوشش کرتے ہیں زمانے کی اقدار کا باغی چند ساعتوں کی میٹھی نیند کے بعد زندگی کی تلخیوں کا سامنا نارمل انسان کی نسبت زیادہ کرتا ہے کچھ ایسے ہی حالات کا شکار شاید ہمارے یہ سینیر اور بلا کے پیشہ ور کرائم رپورٹر تنویر بیگ بھی رہے ہوں گے ہر انسان کی شخصیت اس کی خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتی ہے بہر صورت ایک عہد ہم نے کھودیا تنویر بیگ عرف مرزا تنویر بیگ اب ہم میں نہیں رہے انا للہ وانا الیہ راجعون۔ (آغا خالد)..