Naveed Shad Arain

صحافت کا تابوت تیار ہوچکا

تحریر،نوید شاد آرائیں

پاکستان میں صحافت کا المیہ یہ ہے کہ ہمیشہ صحافت اور صحافیو ں کو خطرہ ریاست سے نہیں بلکہ میڈیا مالکان اور ان کے زر خرید نام نہاد صحافت کے ٹھیکیدار صحافیوں سے رہا ہے جو بظاہر بات صحافی کی کریں گے لیکن تحفظ ارب پتی میڈیا مالکان کو دیں گے APNS ,CPNE کا کام ہی صحافت کا تحفظ نہیں بلکہ میڈیا مالکان کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے ریاست اور ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنا ہے پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک ورکنگ جرنلسٹ اپنے قلم کا آزادانہ استعمال نہیں کرسکا پاکستان میں صحافت ہمیشہ پابند سلاسل ہی رہی کبھی آمریت کے ہاتھوں کبھی ریاستی اداروں کے ہاتھوں اور سب سے زیادہ وقت میڈیا مالکان کے ہاتھوں صحافت کا تقدس پامال کیا جاتا رہا اور صحافی غم روزگار کے ہاتھوں مجبور ہو کر خاموش تماشائی بنا دیکھتا رہاجب بھی صحافی کا ضمیر بیدار ہوا اور اس نے احتجاج کے لئے ساتھیوں کے ساتھ مل کر لائحہ عمل تشکیل دینے کی کوشش کی تو میڈیا مالکان نے سازش کے تحت صحافیوں کو تقسیم در تقسیم کر دیا اور یوں صحافی آپس میں ہی دست و گریباں ہوتے رہے صحافی اگر وہ اپنا ادارہ بنانے کی کوشش کرے تو مالکان کی منصوبہ بندی کے تحت اس کو صحافیوں کے پلیٹ فارم سے زبردستی بیدخل کر دیا جاتا ہے اگر گزشتہ 72 سال میں صحافیوں کی مخلص قیادت نے ورکنگ صحافیوں کو خودمختار بنانے کے لئے ورکنگ صحافیوں کی علیحدہ APNS طرز کا پلیٹ فارم تشکیل دیا ہوتا تو آج صحافی کے بچے اسکول سے بیدخل نہ ہوتے صحافی علاج کے لئے دربدر نہ پھرتا صحافی کے گھر میں فاقے نہ ہوتے میڈیا مالکان نے ریاست اور حکومت کو بلیک میل کرکے اربوں روپے لوٹے جب حساب کتاب کا وقت آیا تو ادارے بند کرنے کی دھمکی دے دی اب ہم نے بہت دیر کر دی ہے پاکستان میں صحافت کا تابوت تیار ہو گیا ہے میڈیا مالکان نے مال کما کر دوسرے سائیڈ بزنس کامیاب کر لئے ہیں لیکن صحافی برباد ہو گیا ہے اور ارب پتی مفاد پرست میڈیا مالکان کے ہاتھوں پاکستان میں صحافت بیوہ ہو چکی ہے۔ اب سمجھ نہیں آرہی کہ پاکستان میں صحافت کے المیہ کا ماتم کروں یا ظالم میڈیا مالکان کی بے حسی کی بھینٹ چڑھ کر موت کی آغوش میں سونے والے صحافت کے شہدا کے ورثا کو پرسہ دوں ۔  ۔ فیسوں کی عدم ادائیگی پر اسکولوں سے زبردستی بیدخل کئے جانے والے صحافیوں کے بچوں کاافسوس کروں یا دوائی کے لئے کسی مسیحا کے منتظر صحافیوں کے بیمار والدین اور اہل خانہ کی بے بسی پر آنسو بہاؤں ۔ ۔ صحافتی تنظیموں کی جانب سے بے روزگار صحافیوں کو راشن کی تقسیم کا طربیہ لکھوں یا اس تاریک دور کا المیہ لکھوں ۔  ۔ پریس کے حروف کو سرخ ہی رہنے دوں یا سیاہ کر دوں ۔ ۔ ۔ غرض کہ حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ دوسروں کی خبریں لینے والے آج خود خبر بن گئے۔(نوید شاد آرائیں)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں