تحریر: شکیل انجم۔۔
وحشت ہوتی ہے یہ سوچ کر جب گزشتہ دور میں قبیل از صحافت مٹانے کےلیے کیا کیا پہاڑ توڑے گئے۔.. عمران خان کی “سونامی” نے پورے ملک میں تو تباہی پھیلا دی لیکن اس طوفان نے قبیل از صحافت کو بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔۔مزاحمتی صحافت کا قلع قمع کرنے کے لیے کیسے کیسے غیر اخلاقی طریقے استعمال کیے گئے۔۔۔
شائد صحافت کا گھپ اندھیرے جنگلوں کا وہ بے سمت سفر تمام ہوا۔۔۔لیکن آمریت، تکبر اور رعونت کی سوچ پر استوار اس حکومت نے جو صرف 100 دنوں میں ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کی دعویدار تھی، تکبرانہ سوچ کی وجہ سے تنقیدی اور مزحمتی صحافیوں کو اپنا اولین دشمن تصور کرتے ہوئے تمام حکومتی ترجیحات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے “دشمنوں” کے خاتمے کو اولین مقصد سمجھ کر شروع کیا اور تمام تر ریاستی، حکومتی اور سیاسی ذرائع استعمال کرتے ہوئے انسداد مہنگائی، انسداد بے روزگاری اور انسداد جرائم میں مکمل طور پر ناکام ہوئی۔۔۔لیکن نظری آمریت پر یقین رکھنے والی حکومت نے “انسداد صحافت” کے مقصد میں کامیابی حاصل کی..۔ اور مزاحمتی صحافت کا وہ حال کیا جس ذکر تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا۔۔۔
پچاس لاکھ ملازمتیں دینے کا سیاسی نعرہ بلند کر کے عوام میں مقبول ہونے کی خواہش تھی۔۔۔ لیکن صحافت سے تعلق رکھنے والے 12 ہزار سے زائد میڈیا ورکرز کو بےروزگار کردیا۔۔۔صحافیوں پر بھوک غالب آ گئی۔۔۔گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوگئے۔۔۔فاقہ کشی چھا گئی۔۔۔ایسی صورتحال میں بچوں کی تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔۔۔مزاحمی صحافت پر یقین رکھنے والوں کے گرد گھیرا اس قدر تنگ کر دیا کہ بیشتر صحافیوں نے یا تو اس شعبہ کو خیرباد کہنے میں عافیت سمجھی ۔..اور کوئی دوسرا راستہ اختیار کر لیا۔۔۔یا نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔۔۔اور بھوک سے بچنے کےلیے اپنے اہل و عیال سمیت اپنے آبائی علاقوں میں منتقل ہو گئے۔۔۔معتبر صحافیوں نے بچوں کی بھوک مٹانے کے لئے دیہاڑیوں پر کام کئے ۔۔ بائیکیابنے۔۔۔ٹیکسی ڈرائیونگ کی۔۔۔ہوٹلوں میں بیراگیری…پزا ڈیلوری کی لیکن حکمرانی دائمی سمجھنے والے کو رحم نہیں آیا۔۔۔
عمران خان کا سول مارشل لا اپنے انجام کو پہنچا تو امید کی ایک کرن نمودار ہوئی۔۔۔اگرچہ آزادئ صحافت، خصوصاً مزاحمتی صحافت کے تصور کا خاتمہ ہر حکومت کی بنیادی خواہشات میں شامل ہوتا ہے۔۔۔ اور یہ بھی حقیقت ہے آزادئ اظہار رائے کے خلاف PECA کا کالا قانون PML-N کی گزشتہ دور حکمرانی میں ہی نافذ کیا تھا۔۔۔لیکن اس لیے بھی اچھائی کی توقع کرنا مناسب ہے اہل اقتدار نے عنان حکومت سنبھالتے ہی میڈیا کو درپیش مسائل حل کرنے کی خواہش ظاہر کی…اور صحافیوں کی ملک گیر تنظیم پاکستان فیڈرل یونین اف جرنلسٹس (پی۔ایف۔یو۔جے) ,اخباری مالکان کی تنظیم, آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے۔پی۔این۔ایس)، پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (پی۔بی۔اے)، نیوز ڈائریکٹرز اور ایڈیٹرز کی تنظیم، الیکٹرونک میڈیا نیوز ڈائریکٹرز اینڈ ایڈیٹرزایسوسی ایشن(ای۔ایم۔ڈی ۔این۔اے) اور میڈیا سے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی جوائینٹ ایکشن کمیٹی کو مشاورت کے ذریعے حل کرنے کی دعوت دی۔۔۔
پی۔ایف۔یو۔جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کی مطابق ملاقات کی دوران یہ بات طے ہوئی کہ PECA کے کالے قانون سمیت آئندہ میڈیا مخالف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا … بلکہ پہلے سے موجود ایسے قوانین میں باہمی مشاورت سے ترامیم کی جائیں گی۔.۔Fake News (جعلی خبریں) کی تعریف اسٹیک ہولڈرز کریں گی۔۔۔میڈیا کے حوالے سے موجودہ قوانین میں ترامیم اور اصلاحات وزارت قانون، وزارت اطلاعات اور میڈیا کےاسٹیک ہولڈرز کی کمیٹی کرے گی۔۔۔اخبارات اور ٹی وی چینلز کے بقایاجات کی جلد از جلد ادائیگی وزارت خزانہ اور AGPR کی ذمہ داری ہو گی۔۔۔جس کے میڈیا ورکرزکےبقایاجات کی ادائیگی بلاتاخیر کر دی جائے گی۔۔.باہمی رضامندی سے یہ بھی طے پایا کہ آئندہ کسی بھی صورت میں میڈیا ورکرز کی تنخواہوں پر کٹ نہیں لگائے جائیں گے۔۔۔اور تنخواہوں کی بروقت ادائیگیوں کو اولین ترجیح دی جائے گی۔۔۔
توقع یہی ہے حکومت میڈیا انڈسٹری مسائل حل اور مشکلات دور کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی۔..اور بہتری کے یہ خواب سراب ثابت نہیں ہوں گے۔۔۔اور …توقع ہے کہ میڈیا مالکان اور صحافتی ادارے بھی صحافیوں کی اہمیت اور ضروریات کو محسوس کریں۔۔۔(بشکریہ جنگ)