sahafat ka paisha khidmat zimmedaari ya waseela rozgar

صحافت کا پیشہ: خدمت،ذمہ داری یاوسیلہ روزگار!

تحریر وتحقیق:  اسرار  ایوبی

صحافت کی تاریخ:    ابتدائی صحافت کی معلوم تاریخ کے مطابق کہا جاتا ہے کہ قدیم روم میں 59 قبل از مسیح  ایک خبری ٹکڑا  (News Sheet) جسے (Acta Diurna)کہا جاتا تھا،اس  پرروزانہ کی بنیاد پر اہم واقعات اور عوامی خطابات تحریر کئے جاتے تھے۔یہ یومیہ شائع کیا جاتا تھا اور اسے عوام کی آگہی کے لئے نمایاں مقامات پر آویزاں کردیا جاتا تھا۔چین میں ٹانگ خاندان(Tang dynesty) کے دور میں سرکاری حکام ایک عدالتی سرکلر جاری کیا کرتے تھے جسے (bao) یا رپورٹ کہا جاتا تھا۔یہ گزٹ مختلف صورتوں اور مختلف ناموں سے1911ء میں چنگ خاندان(Qing dynesty) کے اختتام تک برابر جاری رہا۔پہلے باقاعدہ شائع شدہ اخبارات 1609ء میں جرمن شہروں اور انٹیوروپ سے شائع ہوئے۔ انگریزی زبان کا پہلا اخبار دی ویکلی نیوز1622ء میں شائع ہوا۔ سب سے پہلا روزنامہ The Daily Courant) ( 1702ء میں منظر عام پر آیا۔

صحافت کی تعریف:

صحیفہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی وہ چیزیں جن پر لکھا جاسکے۔ اسی مناسبت سے کاغذ کے ورق کے ایک جانب کے صفحہ کو صحیفہ بھی کہتے ہیں۔ جدید عربی میں صحیفہ بمعنی جریدہ اور اخبار بھی مستعمل ہے۔آخری الہامی کتاب قرآن مجید میں لفظ ”صحیفہ“ آٹھ مقامات پر آیا ہے۔اس سے لفظ صحافت کی تشکیل ہوئی۔قرآن مجید میں قرطاس وقلم کا ذکر بھی موجود ہے۔لہذااسی لئے صحافت کو پیغمبری پیشہ بھی کہا جاتا ہے۔بعد ازاں صحیفہ نگاری یا نامہ نگاری کو ہی اردو میں صحافت کہا جانے لگا۔انگریزی زبان میں یہ لفظ(Journal)سے ماخوذ ہے۔جبکہ آج کل کی زبان زد عام میں صحافت کے شعبہ کو میڈیا کہا جاتا ہے۔

ممتازصحافی، ادیب اور محقق اور سابق صدر شعبہ صحافت جامعہ پنجاب ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اپنی کتاب فن صحافت میں رقم طراز ہیں کہ:

”صحافت کا لفظ صحیفہ سے ماخذ ہے،صحیفہ کے لغوی معنی کتاب یا رسالہ کے ہیں۔عرصہ دراز سے صحیفہ سے مراد ایک ایسا مطبوعہ ہے جو مقررہ وقتوں میں شائع ہوتا ہے۔ چنانچہ تمام اخبارات اور رسائل صحیفہ میں شمار ہوتے ہیں اور جو لوگ اس کی ترتیب و تحسین اور تحریر سے وابستہ ہیں انہیں صحافی کہا جاتا ہے اور ان کے پیشہ کو صحافت کا نام دیا گیا ہے“۔ انگریزی زبان کی ایک کتاب صحافت:  ایک تعارف میں لیزی اسٹیفن نے صحافت کی تعریف یوں بیان کی ہے۔”صحافت ان معاملات کو ضبط تحریر میں لاکر استفادہ کرنے کا نام ہے،جن کے بارے میں آپ کچھ نہیں جانتے۔“ اسی طرح معروف عالمی جریدہ ٹائم میگزین کے ایرک ہوجنز کے خیال میں ”صحافت،معلومات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ دیانت،بصیرت اور رسائی سے ایسے انداز میں پہنچانے کا نام ہے،جس میں سچ کی بالا دستی ہو“۔

صحافت کا مفہوم بیحد وسیع ہے۔ آج کی صحافت محض فطری قوت تحریرہی نہیں بلکہ صحافت کے اعلیٰ اصولوں فن طباعت، زبان، تاریخ، جغرافیہ، شہریت، ملکی اور بین الاقوامی سیاست، اقتصادیات، علم انتظامیہ، آئین و قانون اور عمرانیات جیسے متنوع موضوعات کا ادراک ہے۔ لہذا صحافت کی علمی قابلیت کے ساتھ ساتھ عملی تربیت اور تحقیق بھی یکساں ضروری ہے۔ صحافت کو ریاست کا ایک اہم ستون قرار دیا جاتا ہے۔ایک ایسا ستون جو دنیا بھر کی حکومتوں،اداروں اور شخصیات کے شب وروز اور نشیب و فراز میں انتہائی موثر کردار ادا کر رہا ہے۔ دور حاضر کی جدید ٹیکنالوجی ابلاغیات(Media)کو ایک موثر اور منظم سائنس کا درجہ دے چکی ہے۔

                انسائیکلو پیڈیا آف امریکانا کے مطابق  “Journalism is the collection of periodical dissemination of current news and events or more strictly the business of                                                                   managing,editing or writnig for journals and newspapers”

برصغیر میں آغاز صحافت:

برصغیر میں برطانوی راج کے دوران صحافت کا باقاعدہ آغاز 29جنوری 1780ء کو کلکتہ میں ”ہکیز بنگال گزٹ“ نامی اخبار کی اشاعت سے ہوا۔جبکہ 27مارچ 1822ء کو کلکتہ سے اردو زبان کا پہلا اخبار جام جہاں نما بھی منظر عام پر آیا۔لیکن اگر دیکھا جائے تو اردو زبان کا پہلا خالص اخبار”اخبار دہلی“ تھا۔ جسے مولوی محمد باقر دہلوی (1780-1857)نے دہلی سے جاری کیا تھا۔یہ اخبارہندوستانی قوم پرستی کا زبردست حامی تھا اور 1857ء کی جنگ آزادی میں اس کا بیحد اہم کردار تھا۔مولوی محمد باقرنے اپنے اخبار دہلی کو جنگ آزادی1857ء کی خبروں کے لئے وقف کردیا تھا۔ اسی لئے انگریزوں کی جانب سے  بغاوت پرغلبہ پانے کے بعد مولوی محمد باقر دہلوی تاج برطانیہ کے خلاف بغاوت کے جرم میں معتوب ٹہرائے گئے تھے۔ اور بالآخر انہیں نا کردہ جرم کی پاداش میں کوئی مقدمہ چلائے بغیر توپ کے آگے کھڑا کرکے بارود سے اڑا دیا گیا تھا۔مولوی محمد باقر کو ہندوستان کی تحریک آزادی کے پہلے شہید صحافی کا اعزاز حاصل ہے۔

برصغیر میں ایک دور میں معاشرہ پر اخبارات کے اتنے گہرے اثرات ہوا کرتے تھے کہ شائد دنیا کی کئی طاقت بھی ان کے آگے نہ ٹہر سکتی تھی۔اس دور میں اخبار کو کاغذی دیو بھی کہا جاتا تھا۔اسی لئے اکبر الہ آبادی نے کہا تھا۔!

کھینچوں نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو

  مقابل ہو توپ تو اخبار نکالو

 رئیس الاحرار اور کامریڈ اور ہمدرد کے ایڈیٹرمولانا محمد علی جوہر کی رائے میں ”صحافی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ واقعات کو پوری صحت سے درج کرے اسے خیال  رکھنا چایئے کہ واقعاتی صحت کا معیار اس قدر بلند ہو کہ آنے والا مورخ اس کی تحریر کی بنیاد پہ تاریخ کا ڈھانچہ کھڑا کرسکے۔صحافی رائے عامہ کا ترجمان ہی نہیں رہنماء بھی ہوتا ہے۔ اسے صرف عوام الناس کی تائید اور حمایت نہیں کرنی چاہیئے بلکہ صحافت کے منبر سے عوام کو درس بھی دینا چاہئے۔“

اسی طرح گیا(بہار) ہندوستان کے ایک سابق آئی پی ایس افسر معصوم عزیز کاظمی کے تحقیقی مقالہ کے مطابق  ”صحافت خلاء میں جنم نہیں لیتی، بلکہ صحافت معاشرہ،مملکت کی سچائیاں، تلخیاں، خوشگوار و ناخوشگوار واقعات، سیاست، مذہب، حادثات اور تجربات سماج کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں سب کچھ عیاں ہوتا ہے۔“

صحافت کے بنیادی اصول:

صحافت کا پیشہ آزدی اظہار اور ریاست کے چار بنیادی ستونوں میں سے ایک ستون ہے۔ماہرین نے صحافت کے چار بنیادی اخلاقی اصول تعین کئے گئے ہیں۔ اطلاع، تنقید،اصلاح اور تحسین۔کہتے ہیں کہ صحافت آزاد ہوتی ہے لیکن صحافی کبھی آزاد نہیں ہوسکتا کہ صحافی مصلح ہے۔ چنانچہ اخلاقیات کا سب سے اولین پابند صحافی ہی ہوتا ہے۔اگرچہ صحافت کا کوئی عالمی ضابطہ اخلاق مقرر نہیں، لیکن اس کے باوجود دنیا بھر کے خطوں میں صحافت کے تقریبا 242 مختلف ضابطہ اخلاق موجود ہیں۔

اسلامی تعلیمات میں انسانی زندگی کے تمام شعبہ حیات بشمول صحافت کے لئے رہبری کا سبق موجود ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

”باطل کا رنگ چڑھاکر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو “  (القرآن، سورۃ البقرۃ42)

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

 ”جب تمارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو اچھی طرح چھان بین کرلیا کرو،کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں تمہیں ندامت اٹھانی پڑے“۔

(القرآن، سورۃ الحجرات6

صحافی کی تعریف:  صحافی سے مراد ایسا فرد جو کسی بھی معاملہ میں تحقیق اور پھر متن،خبر، صوتی، سمعی،بصری مواد اور تصاویر کی شکل میں جمع کرکے بڑے پیمانے پر قارئین، سامعین اور ناظرین تک پہنچائے، اسے صحافی اور اس عمل کو صحافت کہا جاتا ہے۔صحافتی امور میں رپورٹنگ،پروف ریڈنگ، تصویر کشی،صدا بندی، فلمبندی،تدوین، ادارت، کالم نگاری،فیچر نگاری اور دستاویزی فلم بندی وغیرہ شامل ہیں۔

صحافت کی اقسام:

خبروں کے لحاظ سے صحافت کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔یعنی سخت خبریں  (Hard News)  اور نرم خبریں  (Soft News)۔

 سخت خبروں اور نرم خبروں کی درجہ بندی اطلاعات کی فراہمی اور خبر کی قسم کی بنیادسے کی جاتی ہے۔سخت خبریں عموما سنجیدہ حقائق پر مبنی اسٹوریز، سیاست، حالات حاضرہ،حکومت کی کارکردگی، جرائم اور کاروبار پر مشتمل ہوتی ہیں۔

  سخت خبریں  (Hard News) :

تحقیقاتی صحافت:  تحقیقاتی صحافت(Investigative Journalism) کا تعلق کسی خاص موضوع،، فرد، ادارے،دلچسپی کے کسی موضوع یا کسی اہم واقعہ سے متعلق پوشیدہ سچائی یا حقائق کی بنیاد پردہ اٹھانا ہے۔تحقیقاتی صحافی  (Investigative Journalist)  حقائق کی تلاش کے لئے ان معاملات اور جملہ دستاویزات کا مطالعہ کرتا ہے۔صحافی کو خبر کے حقائق کا کھوج لگانے کے دوران بیحد مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پھر تحقیقات مکمل ہونے کے بعدصحافی اس تحقیقاتی خبر کوخصوصی خبر کی شکل دے کر جلی سرخیوں کے ساتھ ان اسکینڈلز کو بے نقاب کرتا ہے۔لیکن دستاویزات تک رسائی اور حقائق کی تصدیق کے پیچیدہ طریقہ کار کے باعث بعض اوقات کسی ایک کیس کو مکمل کرنے میں مہینے اور سال تک لگ جاتے ہیں۔لہذا  اس مقصد کے لئے کسی بھی تحقیقاتی صحافی کے پاس ٹھوس معلومات اور دوران تحقیق صبروتحمل اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔

 سرکاری اداروں کی صحافت:  وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومتوں اور دیگر سرکاری اداروں کے متعلق رپورٹنگ کو ایک انتہائی ذمہ دارانہ صحافت میں شمار کیا جاتا ہے۔بیشتر سینئر صحافی وفاقی، صوبائی اداروں اور دیگر سرکاری اور خود مختار محکموں کی رپورٹنگ سے وابستہ ہیں۔ جو اپنی رپورٹوں،خصوصی رپورٹوں اور خبروں کے ذریعہ عوامی محصولات کے ذریعہ چلنے والے ان قومی سرکاری اداروں کی خدمات اور کار گزاری اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان قومی اداروں کی ناقص کارکردگی،اعلیٰ افسران کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال،بے قاعدگیوں،غبن اور بدعنواینوں کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔ سرکاری اداروں کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں پر لازم ہے کہ وہ ملک کے آئین و قوانین، مختلف وفاقی،صوبائی اور خود مختارسرکاری اداروں کے قواعد و ضوابط،  ان اداروں اورمحکموں کے فرائض اور ان کے اداروں اور محکموں کے افسران اعلیٰ کے فرائض و خدمات کے متعلق درکار معلومات رکھتے ہوں۔

سیاسی شعبہ کی صحافت: سیاسی صحافت(Political Journalism) کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔جن میں بین الاقوامی سیاست کی خبریں، ملکی سیاست کی خبریں اور مقامی سیاست کی خبریں شامل ہیں۔ جو صحافی (Political Reporting) کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ انہیں ملک کی سیاسی         تاریخ، سیاسی جماعتوں،سیاسی واقعات، سیاسی شخصیات، عام انتخابات کا طریقہ کار، سیاسی پالیسیوں اور ان کے اثرات و نتائج کی گہری سمجھ بوجھ ہونی چاہئے اور پھر ان خبروں میں اپنی ذاتی رائے شامل کئے بغیر بالکل غیر جانبدارانہ انداز میں ان خبروں کو اپنے قارئین اور ناظرین تک پہنچانا چاہئے۔یہاں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ سیاسی رپورٹنگ ایک نہایت محتاط اور ذمہ دارانہ رویہ کی متقاضی ہے۔ جس میں اگر آپ کی ذاتی رائے اثر انداز ہوگئی تو اپنے قارئین اور ناظرین کی نظروں میں آپ کی ساکھ بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔

جرائم کی صحافت:  جرائم کی رپورٹنگ سے وابستہ صحافی(Crime Reporter) اپنے اخبار یا نیوز ٹی وی چینل کے لئے مختلف جرائم، چوری، ڈکیتی،قتل، اغواء،حادثات اور اسمگلنگ وغیرہ کے واقعات اور وارداتوں کی رپورٹنگ کرتا ہے۔ ملزمان کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری، عدالتوں میں ملزمان کے مقدمات کی سماعت کے دوران عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ اور قیدیوں کے ساتھ غیر قانونی سلوک اور انہیں درپیش مسائل پر انٹرویو کرتا ہے۔ کسی انسان کے بہیمانہ قتل سے لے کر اسٹاک مارکیٹ میں شیئرز کی ہیرا پھیری تک جو بھی عمل ضابطہ اور خلاف قانون ہو وہ فوجداری جرم کے زمرہ میں آتا ہے۔ جرائم کا رپورٹر پراسرا رطور سے ہونے والے انسانی قتل یا کسی ادارہ میں رقوم کے غبن کی خبروں تک کی بھی رپورٹنگ کرتا ہے۔ ایک جرائم رپورٹر کو ملک کے آئین و قانون، تعزیرات پاکستان،قواعد و ضوابط، سمیت فوجداری قوانین کی دفعات ایف آئی آر، اور دیوانی قوانین پر عبور ہونا چاہئے۔

عدالتی صحافت:  ملک میں آئینی بحران،نیب اور ایف آئی کی جانب سے سنگین مالی بدعنوانیوں میں ملوث اعلیٰ سرکاری افسران، اہم سیاسی شخصیات اور وزراء کو عدالتوں میں بے شمار مقدمات کا سامنا ہے۔ لہذا  اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی اخبارات اور نیوز ٹی وی چینلز کی جانب سے عدالتوں میں زیر سماعت ان اہم مقدمات کی کارروائیوں کی رپورٹنگ کے لئے عدالتی رپورٹروں کو بھی تعینات کیا جانے لگاہے۔ عدالتی رپورٹروں کو آئین پاکستان، مجموعہ تعزیرات پاکستان کی متعلقہ قانونی دفعات، عدالتی طریقہ کار، نیب اور ایف آئی اے کے تادیبی کارروائیوں کے قوانین سے واقفیت لازمی ہے۔

سفارتی صحافت:  بعض قومی اخبارات کے سینئر اور تجربہ کار رپورٹرسفارتی رپورٹر کی کی حیثیت سے ملک میں غیر ملکی قائم سفارت خانوں،قونصل خانوں اور سفارت کاروں کی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ سفارتی رپورٹر کی ذمہ داریوں میں سفراء کرام اور سفارت کاروں کے انٹرویوز، دونوں ممالک کے باہمی تعلقات، دو طرفہ تجارت، در آمدات و برآمدات، دونوں ممالک کے عوام میں خیرسگالی اور دوروں اور ان ممالک کے قومی دن کی تقریبات کی رپورٹنگ شامل ہے۔ سفارتی رپورٹنگ کا شمار رپورٹنگ کے اہم شعبہ میں کیا جاتا ہے۔

پارلیمانی صحافت:  پارلیمانی رپورٹر، پارلیمنٹ ، سینیٹ آف پاکستان، قائمہ کمیٹیوں اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاسوں اور کارروائیوں،قانون سازی،کے متعلق خبروں کی رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں اور ارکان سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کی سرگرمیوں کے متعلق رپورٹنگ اور سیاسی تجزیئے پیش کرتے ہیں۔

بزنس/کامرس کی صحافت:  بزنس یا کامرس رپورٹر ملک کے بزنس اور کامرس کے شعبہ کی رپورٹنگ پر مامور ہوتے ہیں۔کیونکہ اقتصادیات کا شعبہ کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملک کی اقتصادیات میں تجارت،در آمدات و برآمدات کے اہداف،محصولات، اسٹاک مارکیٹ، خام تیل و سونے کا بھاؤ،سالانہ بجٹ، سرکاری ترقیاتی منصوبوں،سرمایہ کاری، صنعت تعمیرات، رئیل اسٹیٹ، صنعتی پیداوار،اشیائے صرف،بینک دولت پاکستان اور دیگربینک، کاروباری اور تجارتی ادارے کلیدی حیثیت کے حامل ہیں۔بزنس کے شعبہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں انگریزی کا ایک قدیم روزنامہ بزنس ریکارڈر کراچی اور روزنامہ بیوپار کراچی اقتصادیات کے شعبہ پر خصوصی روزناموں کی منفردحیثیت رکھتے ہیں۔ بزنس رپورٹر کے لئے ملک کی اقتصادیات کے بنیادی امور، سرکاری تجارتی اور کاروباری پالیسیوں، مالیاتی اداروں، کرنسی کے اتار چڑھاؤ، اسٹاک مارکیٹ کے نظام اور شیئرز کے روز مرہ سودوں، بینک دولت پاکستان کی مالیاتی اور تجارتی پالیسیوں،شرح سود، محصولات،ملک کے تجارتی اہداف، سالانہ وفاقی اور صوبائی بجٹ کے متعلق ٹھوس معلومات ہونا بیحد ضروری ہیں۔

نرم خبریں (Soft News)

فنون /(Arts)کلچرل صحافت:   فنون اور کلچرکے شعبہ کی رپورٹنگ فن اور ثقافت کے مختلف شعبوں رقص،موسیقی،، فلم،تھیئٹر، ادب،مصوری،ڈرامہ اور شاعری کا احاطہ کرتی ہے۔ فنون اور کلچر کا رپورٹر شائقین فنون کے لئے تازہ ترین خبریں مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ فنون اور ثقافت کی دنیا میں رونما ہونے والی سرگرمیوں، نت نئی پیش رفت اور معاشرہ میں جنم لینے والے نئے رحجانات کا تجزیہ پیش کرتا ہے۔

شو بزشخصیات (Celebrity) کی صحافت:   نامور شو بزشخصیات  (Celebrity) کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں اور فوٹو گرافروں کی ذمہ داری نامور اور مقبول  شو بزشخصیات کے متعلق ان کی نجی زندگی، رومان،اسکینڈلز، ان کی ذاتی سرگرمیوں، آنے والی فلموں اور پبلک پروگراموں میں شرکت کی تازہ ترین خبریں جمع کرنا ہے۔ شوبز صحافی ان شو بز شخصیات کے لاکھوں مداحوں کے لئے ان کے  ذاتی انٹرویو اور گپ شپ بھی کرتا ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں ان کے لاکھوں مداح اپنی پسندیدہ شو بزشخصیات کے متعلق پڑھنا اور دیکھنا پسند کرتے ہیں۔

تعلیمی شعبہ کی صحافت:   تعلیمی رپورٹرز شعبہ تعلیم میں پیش رفت،تعلیمی اداروں کی سرگرمیوں، طلبہ کودرپیش مسائل سمیت اس شعبہ میں رونما ہونے والے دیگر اہم واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ تعلیمی رپورٹرز اسکول کی سطح سے یونیورسٹی تک تعلیمی اداروں کے نصاب،درس و تدریس،سرکاری تعلیمی پالیسیوں، عملدر آمد، تعلیمی نظام کی خرابیوں، داخلہ پالیسیوں، بھاری فیسوں اورامتحانات  کے دوران بے قاعدگیوں جیسے مسائل اجاگر کرتے ہیں۔ تعلیمی رپورٹر کے لئے ضروری ہے کہ وہ ملک میں رائج جملہ نظام تعلیم،تعلیمی نصاب، محکمہ تعلیم اور یونیورسٹی ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے متعلق کماحقہ معلومات رکھتا ہو۔

شعبہ صحت کی صحافت:  صحت رپورٹر (Health Reporter) کی بنیادی ذمہ داریوں میں حکومت کی جانب سے عوام الناس کی صحت کی دیکھ بھال اور علاج و معالجہ کی فراہمی کا جائزہ لینا،عوام میں وبائی امراض اور دیگر عام امراض کے متعلق شعور اور آگہی فراہم کرنے، وزارت صحت، محکمہ صحت اور مقامی حکومتوں کے تحت قائم شفا خانوں کی خدمات و کارکردگی کا جائزہ لینا، ڈاکٹروں اور طبی عملہ کی کارکردگی پر نظر رکھنا،مریضوں کے لئے ادویات کی فراہمی کے نظام اور علاج و معالجہ کی خدمات اور کارکردگی اور مختلف پیچیدہ امراض پر تحقیق اور ان امراض کے جدید طریقہ علاج پر رپورٹنگ کرنا ہے۔

 اسپورٹس کی صحافت:  جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اسپورٹس رپورٹر(Sports Reporter) انڈور اور آؤٹ ڈور کھیلوں،مختلف کھیلوں کے ملکی اور غیر سطح کے مقابلوں،نامورکھلاڑیوں سے بات چیت اوراسپورٹس کے شعبہ کے اہم حالات اور واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ اسپورٹس کے شعبہ سے وابستہ صحافیوں کے لئے کھیلوں کے براہ راست مقابلوں میں ذاتی طور پر شرکت اور براہ راست میچز دیکھنے کے مواقعوں، ملک اور بیرون ملک سفر کی مراعات کے ساتھ ساتھ نامور کھلاڑیوں سے بات چیت،ملاقاتوں اور انٹرویوز کے اضافی مواقع بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس شعبہ سے وابستہ رہنے کے خواہشمند صحافیوں کے لئے مختلف کھیلوں کے قواعد وقوانین سے واقفیت اور انگریزی زبان پر عبور ضروری ہے۔

 لائف اسٹائل کی صحافت:  کچھ عرصہ سے لوگوں میں طرز زندگی(Life Style) کے متعلق نت نئی معلومات کے حصول اور دلچسپی کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے۔ اس مقصد کے لئے بعض بڑے اخبارات خصوصا انگریزی اخبارات میں لائف اسٹائل رپورٹر(Life Style Reporter) خدمات انجام دیتے ہیں۔جو اپنے قارئین اور ناظرین کو ملکی اور غیر ملکی تفریحی مشاغل،رقص و موسیقی، کھانے پکانے، باغبانی، تفریح، گھر کی سجاوٹ،فیشن، فٹنس، صحت مند اور متوازن خوراک کی عادات اور صحت مند زندگی گزارنے کے گر بتاتے ہیں۔

شعبہ محنت کی صحافت:  شعبہ محنت ملک کی زراعت، صنعت و حرفت، معیشت، پیداوار اور ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔اس وقت ملک کی افرادی قوت(Labour force) تقریبا ساڑھے سات کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس ملک بھر کے پرنٹ، الیکٹرونک اور ڈیجیٹل میڈیا نے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کے حامل کروڑوں مظلوم محنت کشوں، ہاریوں، کارکنوں، ملازمین،گھریلو ملازمین اورازخود ملازمین کو یکسر نظر انداز کر رکھا ہے۔ جو قوم کی اکثریت پر مشتمل طبقہ کے ساتھ امتیازی سلوک اورسنگین حق تلفی کے مترادف ہے۔ملک کے کسی بھی سندھی، اردو اور انگریزی اخبار کو ان مظلوم محنت کشوں کو درپیش غیر یقینی ملازمتوں قلیل اجرتوں،طویل اوقات کار اور علاج و معالجہ سے محرومی،کام کی جگہ صحت و حفاظت کی سہولیات کی عدم دستیابی جیسے سنگین مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ملک کے ان کروڑوں محنت کشوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے کسی بھی اردو یا انگریزی قومی روزنامہ میں کوئی مزدور رپورٹر (Labour Reporter)مقرر نہیں ہے۔بلکہ بزنس اور کامرس رپورٹرز کے ذریعہ محدود پیمانے پر شعبہ محنت کی رپورٹنگ کرائی جارہی ہے۔ صرف روزنامہ جسارت کراچی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس اخبار میں گزشتہ 32 برسوں سے ایک مزدور رہنماء اور سینئر صحافی قاضی سراج العابدین اپنی رپورٹنگ کے ذریعہ ملک بھر کے محنت کشوں کو درپیش مسائل کو بھرپور طریقہ سے اجاگر کرتے ہیں۔روزنامہ ضسارت میں ان کی ادارت میں ہر پیر کے دن مکمل صفحہ پر مشتمل صفحہ محنت کش شائع ہوتا ہے۔

تصویری صحافت:  جدید صحافت میں تصویری صحافی(Photo Journalist) کا کردارانتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اخبارات میں خبروں کے ساتھ تصاویر کی جدت 19ویں صدی میں متعارف ہوئی تھی۔تصویری صحافت میں خبر کو تصویر کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے۔کیونکہ بعض اوقات ایک فوٹوگرافر صحافی کی جانب سے لی گئی تصویر اتنی بڑی حقیقت بیان کردیتی ہے کہ اس حقیقت کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اخبارات میں خبر کے ساتھ تصاویر کو ثبوت کے طور پر بھی شائع کیا جاتا ہے۔ اخبارات و جرائد میں خدمات انجام دینے والے پیشہ ور اور تجربہ کار فوٹو گرافر صحافی شہر میں روز مرہ سرگرمیوں، عوامی و سیاسی اجتماعات، اجلاسوں،کھیلوں کے مقابلوں،احتجاجی مظاہروں جلسے اور جلوسوں وغیرہ کی تصاویر بناتے ہیں۔بعض اوقات فوٹو گرافر صحافی نامساعد حالات،  اورسخت موسمی حالات کے باوجود  اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتے ہیں۔فوٹوگرافر صحافی قدرتی آفات،عوامی احتجاجوں،بلوہ فساد اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر ان مناظر کو اپنے کیمروں میں قید کرلیتے ہیں۔ ان فوٹو گرافروں کی بنائی گئی ماحولیات، قدرتی مناظر، کھیلوں کے مقابلوں اور یا کسی خاص واقعہ کی تصاویر کو اخبارات و جرائد میں متعلقہ خبر کے ساتھ اور بعض اوقات ایک علیحدہ سے کیپشن کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے۔

صحافی اساتذہ :  شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے بیشتر سینئر اور انتہائی تجربہ کار صحافی مختلف ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں صحافت کی درس و تدریس سے  منسلک ہیں جہاں وہ شعبہ صحافت میں نوجوان نسل کو صحافت کی اعلیٰ تعلیم اور تربیت کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں۔ ان اساتذہ کرام نے صحافت کے موضوع پر متعدد تحقیقی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔

کالم نگاری کی صحافت:  جدید صحافت میں کالم نگاری کو بیحد اہمیت حاصل ہے۔کسی اخباری کالم کی بنیاد موضوع، اسلوب اور مشاہدہ ہوتے ہیں۔کالم کی اقسام میں سیاسی کالم، سنجیدہ کالم، معاشی کالم، قانونی کالم،طبی کالم اور دینی کالم شامل ہیں۔ جن نامور ادیبوں نے صحافت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں بیشتر کالم نگار کے طور پر معروف ہیں ادیبوں اور صحافیوں کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ بھی اخبارات و جرائد کے لئے کالم نگاری کریں۔ملک میں بیشتر سینئر صحافی اردو، انگریزی اور سندھی اخبارات میں حالات حاضرہ، سیاست،ادب،مزاح، تاریخ اور عمرانیات سمیت متعدد موضوعات پر ایک طویل عرصہ سے مستقل طور پر کالم نگاری کر رہے ہیں اور ان کے کالم قارئین میں بیحد مقبول ہیں۔

فیچر نگا ری کی صحافی:   فیچر(Feature) انگریزی زبان کا لفظ ہے۔جس کے لغوی معنی کسی چیز کے نمایاں نقش، چہرہ مہرہ،وضع قطع اور خد و خال ہیں        اصناف صحافت میں ایک صنف فیچر نگاری بھی ہے  فیچر نویسی سے مراد کسی اخبار کے میگزین کے لئے کسی خاص موضوع کے متعلق ڈرامائی اور افسانوی انداز میں لکھی گئی ایسی تحریر ہے جس کے ذریعہ قارئین کو دلچسپ انداز میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔فیچر کا متن، تعار،ف ذرائع، زاویئے اور ڈھانچہ کسی خبر کے مقابلہ میں زیادہ طویل اور تحقیقی ہوتاہے۔  فیچر کی اقسام میں نیوز فیچر ا،خلاقی فیچر، سماجی فیچر،تربیتی فیچر اورسوانحی فیچر شامل ہیں۔ایک معروف امریکی صحافی اور مصنف ایچ کلارنس کہتے ہیں کہ”صحافتی تحریروں میں فیچر نگاری کو ایک ایسا منفرد مقام حاصل ہے کہ جو اخبارات کو دوامی شہرت بھی بخش سکتا ہے۔جس کی بدولت ایک فیچر نگار ایک بہترین مبصر اور اپنے زمانہ کے مسائل کا ترجمان بن سکتا ہے“۔

 ملک میں ہر اخبار کے میگزین میں ہر ہفتے مختلف موضوعات پر دلچسپ فیچر شائع ہوتے ہیں، جو قارئین میں بیحد دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔  شعبہ صحافت کی ترقی و ترویج اور فروغ کے لئے قائم پاکستانی اخبارات و جرائد کے مالکان کی انجمن آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی(APNS) کی جانب سے شعبہ صحافت کے دیگر موضوعات کے علاوہ  فیچر نگاری کے شعبہ میں بھی بہترین فیچر نویسی پر منتخب صحافیوں کو انعامات بھی دیئے جاتے ہیں۔

ُٓخص آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹ         ارٹونسٹ صحافت:  لفظ کارٹون لاطینی لفظCartone اور ولندیزی لفظKaton  سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی ہیں مضبوط اور بھاری کاغذ۔ پرنٹ میڈیا میں کارٹون کو ایک فن پارہ کی حیثت حاصل ہے اور کارٹون کو سب سے پہلے برطانوی مزاحیہ جریدہ  پنچ میگزین نے 1843ء میں اپنے صفحات پر استعمال کیا  تھا۔صحافت کی رو سے کارٹون کو صحافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔کارٹون کو اخبارات،جرائد میں روازانہ یا ہفتہ واری بنیادپر حالات حاضرہ یا کسی توجہ طلب موضوع یا درپیش مسئلہ کو گرافک کی شکلوں کے ذریعہ اجاگر کیا جاتا ہے۔ صحافتی کارٹون موجودہ مواصلات کا سب سے طاقتور عنصر ہے۔ملک کے تقریبا تمام قومی اخبارات کے ادارتی صفحات پر کارٹونسٹ صحافی مختلف موضوعات پر اپنے فنکارانہ مزاحیہ اور طنز آمیز انداز فکر کے ذریعہ اظہار کرتے ہیں۔

نمائندگان صحافت:  ملک کے بعض سینئر اور انتہائی تجربہ کار صحافی معروف عالمی خبر رساں اداروں اور اخبارات اور نیوزٹی وی چینلز کی جانب سے ان کی پاکستان میں نمائندگی کرتے ہیں اور ان صحافیوں کی جانب سے ملک کی سیاسی و اقتصادی صورت حال،حالات حاضرہ،اہم واقعات اور دلچسپی کے دیگر موضوعات پر مبنی تحقیقی مضامین اورنیوز رپورٹیں ان عالمی نشریاتی اداروں میں شائع اور نشر ہوتی رہتی ہیں۔

مصنفین صحافت: ملک کے بعض سینئر صحافی کسی صحافتی ادارے میں باقاعدہ ملازمتوں کے بجائے تصنیف اور تالیف کے شعبہ سے بھی وابستہ ہیں۔ جس کے تحت یہ صحافی حضرات وقتا فوقتا تاریخ، سیاست اور صحافت اور دیگر اہم موضوعات پراہم کتابیں شائع کرتے رہتے ہیں۔

یوٹیوبر صحافت:  یو ٹیوب(Youtube) ا دنیا میں طلاعات اور خبروں کا ایک انتہائی موثر ذریعہ ہے۔ جوایک امریکی آن لائن شیئرنگ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے۔ جس کا صدر دفتر سان برنو،کیلیفورنیہ میں قائم ہے۔ اسے اسٹیو چن، چڈ ہرلے اور جاوید کریم نامی تین نے14فروری 2005ء میں قائم کیا تھا۔اس وقت یوٹیوب (Google)کی ملکیت ہے اور دنیا بھرمیں گوگل سرچ انجن کے بعدوسری سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویب سائٹ ہے۔پچھلے کچھ عرصہ سے ملک میں حکومت اور اداروں کی جانب سے تنقید اور احتساب سے خوفزدہ ہوکر اظہار رائے،آزادی صحافت اوربعض اصول پسند صحافیوں کی آواز دبانے کی کوششیں کی گئی تھیں۔حکومت کی جانب سے اپنے ناپسندیدہ صحافیوں اور میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی پالیسیوں کے باعث بعض باضمیر اور فرض شناس صحافیوں نے اخباری اداروں اور نیوز ٹی وی چینلز کی ملازمتوں کو خیر باد کہتے ہوئے اپنے ذاتی یوٹیوب نیوز چینلز تشکیل دیئے ہیں۔ جن کے ذریعہ وہ آزادی صحافت اورحق اظہار رائے کی پاسداری کرتے ہوئے قوم کو غیرجانبداری سے تازہ ترین خبروں اورحقائق سے آگاہ کرنے کا قومی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

نیوزاینکر پرسن:  دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ملک میں بھی دو دہائی قبل سٹیلائٹ نیوز ٹی وی چینلز کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ جو اخبارات اور جرائد کے مقابلے میں عوام الناس میں تیزی سے مقبول ہوئے۔ ان نیوز چینلز پر خبروں،تجزیوں،بحث و مباحثوں اور پینل گفتگو کے مختلف  پروگراموں آغاز کیا گیاتھا بہت سے سینئر صحافی اینکر پرسن کی حیثیت سے ان پروگراموں کی میزبانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

اضلاعی نامہ نگاری/ نمائندہ صحافی:  قومی اخبارات اور نیوز ٹی وی چینلز کی جانب سے مقامی صحافیوں کو مختلف اضلاع اور قصبات میں نامہ نگاروں اور نمائندوں کی حیثیت سے مقرر کیا جاتا ہے۔جو اپنے علاقوں اور اضلاع میں ہونے والے روز مرہ کے اہم واقعات، شہریوں کو درپیش مسائل،سیاسی سرگرمیوں سمیت مختلف اہم واقعات اور حادثات کی تازہ خبریں اپنے اخبارات اور نیوز ٹی وی چینلز کو ارسال کرتے ہیں۔ان صحافیوں کو نامہ نگار اور نمائندہ کہا جاتا ہے۔

سائبر،آن لائن اور ڈیجیٹل صحافت:  صحافت کی یہ قم سائبر صحافت، آن لائن صحافت یا ڈیجیٹل صحافت کہلاتی ہے۔ یہ صحافت کی سب سے جدید شکل ہے۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ اس میں مختلف انٹر نیٹ پلیٹ فارموں سے عوام الناس کے لئے اطلاعات اور خبریں پیش کی جاتی ہیں۔ورلڈ وائیڈ ویب (www)متعارف ہونے اور انٹر نیٹ کی سہولیات کی بدولت دنیا اب ایک خیالی عالمی گاؤں (Virtual Global Village)میں تبدیل ہوگئی ہے۔ انٹر نیٹ اور آسان رسائی کے پلیٹ فارموں کی بدولت سائبر اور ڈیجیٹل صحافت کو عوام الناس میں بیحد مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف قومی اخبارات نے اپنے اخبارات کے الیکٹرونک پیپرز بھی متعارف کرائے ہیں اور نیوز ٹی وی چینلز نے صحافت کو یو ٹیوب چینلز کے لئے وقف کردیا ہے۔یہاں تک کے مختلف نیوز ٹی وی چینلز اورپرنٹ میڈیا ہاؤسز نے بلاگرز، ویب سائٹس اور یوٹیوب کے استعمال کرتے ہوئے ڈیجیٹل دنیا میں بھی قدم رکھ دیا ہے۔

براڈ کاسٹنگ اورٹی وی کی صحافت:صحافت کے ا س شعبہ کے ذریعہ سامعین اور ناظرین کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ تازہ ترین خبریں فراہم کی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں ابلاغ کی منفرد خصوصیات کے حامل یہ دونوں طریقے بڑے پیمانے پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرنٹ میڈیا کے مقابلہ میں عوام الناس میں ٹیلیویژن صحافت زیادہ مقبول ہے۔کیونکہ یہ ذرائع ابلاغ سماعت اور بصارت کے ساتھ تازہ ترین خبریں نشر کرتے ہیں۔سمعی اور بصری انداز سے پیش کردہ خبروں کے باعث ناظرین ٹیلیویژن سیٹ سے جڑے رہتے ہیں۔صحافت کی اس قسم میں بے پناہ لاگت اور مہنگے وسائل درکار ہوتے ہیں۔ ملک میں سرکاری نشریاتی ادارہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے علاوہ درجنوں نجی نیوز ٹی وی چینلز24گھنٹے تازہ خبریں اور رپورٹیں نشر کرنے میں مصروف ہیں۔جہاں صحافی ڈائریکٹر نیوز،اینکر پرسنز، بیورو چیف،ڈپٹی بیورو چیف،پروڈیوسرز،نیوز کاسٹرز،رپورٹر، کیمرہ مین کی حیثیت سے اپنے سامعین اور ناظرین کو رپورٹنگ، براہ راست رپورٹنگ اور انٹرویوز کے ذریعہ باخبر رکھتے ہیں۔

خبر رساں اداروں کی صحافت: ملک میں سرکاری سطح پر قائم خبر رساں ادارہ ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان(APP)کے علاوہ متعدد نجی خبر رساں ادارے بھی قائم ہیں۔ جو قومی اخبارات اور نیوز ٹی وی چینلز کے لئے تازہ ترین خبریں اور رپورٹوں کی ترسیل اور تقسیم کی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔ ان خبر رساں اداروں میں بھی بے شمار صحافی اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔

جرائد کی صحافت:  بعض صحافی ہفت روزہ اور ماہنامہ جرائد اور ڈائجسٹوں  سے بھی وابستہ ہیں۔ جہاں وہ مضمون نگاری،ترجمہ نگاری،افسانہ نگاری اور ادارت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔

شعبہ اشتہارات کی صحافت:  صحافت اور اشتہارات کا چولی دان کا ساتھ ہے۔اخباری صنعت کے وجود کو برقرار رکھنے اور پروان چڑھانے کیلئے اشتہارات ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ایک جانب اشتہارات کے ذریعہ آمدنی اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا کے لئے اپنی مالیاتی بنیادیں مضبوط کرنے کا اہم ذریعہ ہیں تو دوسری جانب اشتہارات پر انحصار آزادی صحافت کی خود مختاری کے لئے سخت خطرہ کا باعث بھی ہوتا ہے۔بعض صحافی اشتہاری اداروں میں کری ایٹیو ڈائریکٹر،ڈائریکٹر مارکیٹنگ، سوشل میڈیا سپورٹ اسپیشلسٹ، کاپی رائٹر، تخلیقی کاپی رائٹر، کونٹینٹ رائٹر، گرافک ڈیزائنر اور ڈائریکٹر پروڈکشن کی حیثیت سے منسلک ہیں۔

فری لانس صحافت:  فری لانس صحافی اور فوٹو گرافرز اگرچہ مروجہ صحافت کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔لیکن وہ کسی اشاعتی یا نشریاتی اداروں میں باقاعدہ ملازم ہونے کے بجائے ازخود ملازم(Self Employed) ہوتے ہیں ۔ فری لانس صحافی  مختلفاشاعتی، نشریاتی اداروں اور سوشل میڈیا کو صحافت کے مختلف شعبوں کہانی نویسی، تحقیق، تحریر،مضمون نگاری، فوٹو گرافی اور کارٹون فی گھنٹہ معاوضہ یا فی حصہ کے حساب سے فروخت کرتے ہیں۔

شہری صحافت:  دنیا میں سماجی رابطے (Social Media) کے انقلاب کے بعد معاشرہ کے عام افراد میں درپیش مسائل،شکایات اور گرد وپیش کے اہم واقعات کو اجاگر کرنے کا  شعور پروان چڑھا ہے۔جس کے نتیجہ میں اسمارٹ فون کے استعمال کے ذریعہ عوامی مقامات اور اہم واقعات کی رپورٹنگ اور فلمبندی  اور انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے سے شہری صحافت (Citizen Journalist) کو بڑے پیمانے پر فروغ حاصل ہوا ہے۔اس رحجان کے نتیجہ میں اب شہری اپنے اسمارٹ فون کے ذریعہ کسی بھی اہم واقعہ یا کارروائیوں کی فلمبندی کرکے اسے سوشل میڈیا پر فورا اپ لوڈ کردیتے ہیں۔جو اپنے  غیر معمولی موضوع کے باعث سوشل میڈیا پر نہایت تیزی سے جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ بعض اوقات سرکاری حکام اور ادارے ایسی سوشل میڈیا رپورٹیں منظر عام پر آنے کے بعد پر فوری کارروائی کرتے ہیں۔ ایسے باشعور شہریوں کو صحافت کی اصطلاح میں شہری صحافی(Citizen Journalist) کہا جاتا ہے۔

زرد صحافت:   یہ صحافت کی پست ترین شکل ہے۔ جس میں کسی خبر کے سنسنی خیز پہلو پر زور دینے کے لئے اصل خبر کی شکل کو اس قدر مسخ کردیا جاتا ہے کہ اس خبر کا اہم پہلو قاری یا ناظر کی نظر وں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ یہ اصطلاح انیسویں صدی میں وضع ہوئی تھی جب نیویارک کے اخبارات کے رپورٹرز اپنے اخبارات کی اشاعت بڑھانے کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر وحشت ناک اور ہیجان انگیز رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔ یہ اشاعتی جنگ (Circulation War)  اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی جب بعض اخبارات نے کیوبا میں تعینات ہسپانوی فوجیوں کے مظالم کی داستانیں اس قدر نمک مرچ لگا کر شائع کیں اور امریکی رائے عامہ کو اس کے خلاف اس قدر برانگیختہ کردیا کہ امریکہ اور اسپین کی جنگ تقریبا ناگزیر ہوگئی تھی۔ زرد صحافت کی اصطلاح دراصل ایک سنسنی خیز مزاحیہ سیریز  Yellow kidسے ماخوذ ہے،جو اس دور میں امریکی اخبارات میں شائع ہوتا رہا۔

سرکاری انفارمیشن افسر:  صحافت کی تعلیمی قابلیت کے حامل صحافیوں کی حکومت پاکستان کے تحت سول سروس کے امتحان کے ذریعہ کامیابی کی صورت میں پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (PID) میں انفارمیشن افسر کے عہدہ پر تقرری بھی عمل میں آتی ہے۔سرکاری انفارمیشن افسر کے فرائض میں حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کو ذرائع ابلاغ میں اجاگر کرنا ہے۔سینئر انفارمیشن افسران کو وزیر اعظم اور صدر پاکستان کے پریس سیکریٹری اور وفاقی وزراء کے ساتھ بطور افسر تعلقات عامہ بھی تعینات کیا جاتا ہے۔اسی طرح سینئرانفارمیشن افسران کو بیرون ملک قائم سفارت خانوں میں پریس قونصلر کی حیثیت سے بھی تعینات کیا جاتا ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں میں بھی اسی طرز پر صوبائی سطح پر محکمہ اطلاعات قائم ہیں۔ جہاں صوبائی امتحانی مقابلوں میں کامیابی کے بعد ان صحافیوں کو مختلف وزراء کے ساتھ بطور افسر تعلقات عامہ اور محکموں میں علاقائی انفارمیشن افسر تعینات کئے جاتے ہیں۔ جن کی ذمہ داری صوبائی حکومت اوران کے متعلقہ محکموں کی خدمات، کارکردگی اور حکومت کی پالیسیوں کو ذرائع ابلاغ میں اجاگر کرنا ہوتاہے۔

افسر تعلقات عامہ(PRO):  وفاقیِ صوبائی اور خود مختار اور دیگر اداروں میں صحافت کی مطلوبہ تعلیمی قابلیت اور تجربہ کے حامل صحافیوں کے لئے افسر تعلقات عامہ(PRO)  کے اہم اور ذمہ دار عہدوں کے مواقع موجود ہوتے ہیں۔ ان سرکاری خود مختار اور نجی اداروں کے افسر تعلقات عامہ (PRO) کی ذمہ داریوں میں اپنے اداروں کے مقاصد،خدمات اور کارکردگی کو میڈیا کے ذریعہ پیش کرنااور عوام الناس کے درمیان اپنے اداروں کی اچھی ساکھ اور شہرت کو برقرار رکھنے کے لئے ادارے کی کامیابیوں کو ذرائع ابلاغ میں اجاگر کرنا ہے اور کسی منفی خبر کی اشاعت یا نشر ہونے کی صورت میں اس منفی اور گمراہ کن خبر کی فوری طور پر تردید جاری کرنا ہے۔

خبروں کی بعض اقسام:

خبر کی معروف تعریف:معروف امریکی صحافی اور مصنف چارلس اینڈرسن ڈانا(1819-1897) کا مشہور قول ہے کہ”اگر کتا انسان کو کاٹ لے تو یہ خبر نہیں لیکن اگر انسان  کتے کو کاٹ لے تو یہ خبر ہے“۔

فرضی خبر (Disinformation):  فرضی خبر بھی ایک قسم کی زرد صحافت ہے۔ جس میں پس پردہ مقاصد کے حصول کے لئے کسی بھی گمراہ کن اور من گھڑت خبر کی تشہیر کے لئے جان بوجھ کر عوام الناس میں تلبیس اطلاع(Disinformation)کی صورت میں پھیلایا جاتا ہے۔ جس کو روائتی اشاعتی اداروں اور نشر یاتی خبر رساں ذرائع اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کے ذریعہ عوام الناس تک پہنچایا جاتا ہے۔

جعلی خبر(Fake News):  جعلی خبر ایک جھوٹی اور گمراہ کن خبر ہوتی ہے لیکن جسے خبر کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔جعلی خبر کا مقصد کسی فرد،شخصیت یا ادارے کو نقصان پہنچانا یا اس کے اشتہارات کی آمدنی کے ذریعہ پیسہ کمانا ہے۔ اگرچہ پوری انسانی تاریخ میں جعلی خبریں پھیلائی جاتی رہی ہیں لیکن جعلی خبر کی اصطلاح پہلی مرتبہ1890ء میں استعمال کی گئی جب یورپ میں سنسنی خیز خبروں کے اخبارات عام تھے۔

پروپیگنڈا:  پروپیگنڈا(Propaganda)  انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ عام بول چال میں اس کے معنی دروغ گوئی ترغیب و تحریص یا افواہ کا پھیلانا ہے۔اکثر اوقات بعض حکومتیں سیسی جماعتیں یا گروہ غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے اپنے مفادات کے پیش نظر غلط روایات اور واقعات کا چرچا کرکے اپنی مطلب براری حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ٹیبلائڈ(Tabloid) صحافت:   ٹیبلائیڈ صحافت سے مراد بڑے پیمانے پر مقبول انداز میں ڈرامائی اور غیر مصدقہ سنسنی خیز خبریں شائع کرنا ہے۔ ایسے اخبارات کو(Tabloid Newspaper format)بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اخبارات عام اخبارات کے صفحات کے سائز کے مقابلہ میں نصف سائز کے ہوتے ہیں۔ انہیں ایک دور میں زرد صحافت یا اسکینڈل شیٹ بھی کہا جاتا تھا۔ اس غیر ذمہ دارانہ اور سنسنی خیز صحافت کا آغاز1770ء میں لندن سے کیا گیا تھا بعد ازاں 1840ء کے اوائل میں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں بھی اس ٹیبلائیڈ صحافت کا آغاز ہوگیا تھا۔

ماضی میں صحافیوں کے لئے کمیونیکیشن کی سہولیات کے فقدان اور محدود وسائل کے باعث اخباری رپورٹروں کو رپورٹنگ اور اپنے اخبار کو تازہ ترین خبروں کی بروقت ترسیل کے لئے کس قدر پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔اس کا اندازہ درج ذیل واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

 انگریزی کے معروف ناول نگار چارلس ڈکنز(1812-1870) ایک دور میں برطانوی پارلیمنٹ کے رپورٹر ہوگئے تھے۔ انہوں 1830ء میں ایک تحریر میں خبریں جمع کرنے اور ان کی اخبار کے دفتر میں بروقت ترسیل کے مصائب کو بیان کیا ہے۔ جس سے ان کی پیشہ ورانہ فرائض سے لگن اور فرض شناسی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

”کتنی ہی بار میں نے ایسی تقریروں کو جن میں بیحد احتیاط اور بالکل ٹھیک ٹھاک بیان کرنے کی ضرورت تھی۔ صرف یادداشت کی بنیاد پر بول بول کر لکھوایا ہے۔ ایسی تقریریں جن میں ذرا سی غلطی مجھ جیسے نوجوان  رپورٹر کو نقصان پہنچا سکتی تھی، اندھی سی لالٹین کی روشنی میں اپنی ہتھیلی پر نوٹس لیتا رہتا تھا۔ چار گھوڑوں کی ڈاک گاڑی رات کے سناٹے میں جنگل کے راستوں پر حیرت ناک15میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتی رہتی۔پارلیمنٹ میں دھواں دار اور جوشیلی تقریریں سننے کے بعد میں سیدھا پریس کو واپس لوٹتا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ملک میں چلنے والی شائد ہر قسم کی گاڑی میں بیٹھنے کی تکلیف برداشت کی ہے صرف اس لئے کہ اخبار کی اشاعت کے لئے ٹھیک وقت پر پہنچ سکوں۔ میں نے لندن سے چالیس میل کے فاصلہ پر بغیر پہیوں والی گاڑی میں دلدل میں اٹی سڑکوں پر رات کے اندھیرے میں بھی سفر کیا ہے۔ جن کے گھوڑے تھکن اور گاڑی بان نشے سے چور ہوتا“

برصغیر کے چند نامور اور بیباک صحافی:

برصغیر میں آسمان صحافت کے اولین ستاروں مولانا محمد علی جوہر، ایڈیٹر کامریڈ اور ہمدرد، مولانا ابوالکلام آزاد، ایڈیٹر الہلال اور البلاغ، مولانا حسرت موہانی،ایڈیٹر رسالہ اردوئے معلی اور مولانا ظفر علی خان، ایڈیٹر زمیندارکے مقبول عام اخبارات اپنی بیباکی اور بے خوفی کے ساتھ اظہار خیال کا بہترین نمونہ تھے۔ان  نامور صحافیوں کی جانب سے حکومت پر کڑی تنقید اور باغیانہ پالیسیوں کے باعث انگریز حکومت اکثر ان اخبارات سے خائف رہا کرتی تھی اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اکثر ان کے اخبارات کی اشاعت پر کئی کئی ماہ تک پابندی عائد کردیا کرتی تھی۔ مالکان اور ایڈیٹروں سے سزاؤں کے طور پر جرمانوں کی مد میں بھاری زر ضمانت طلب کی جاتی تھیں۔ لیکن ان تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ان عظیم شخصیات نے پابند سلاسل ہونا تو قبول کیا لیکن نہ کبھی اپنے موقف سے ذرہ برابرپیچھے ہٹے اور نہ ہی کبھی ان باطل قوتوں کے آگے جھکے اور نہ ہی کبھی حکومت سے اصولوں پر سمجھوتہ قبول نہیں کیا

صحافت ایک خطرناک پیشہ:  قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی طرح اب ملک میں صحافت کا پیشہ بھی ایک انتہائی جان لیوا اور خطرناک پیشہ بن گیا ہے۔ ملک میں فرض شناس اور باضمیر صحافیوں کی جانب سے انتہائی طاقت ور گروہوں، بدعنوان سرکاری حکام، منتخب نمائندوں کی جانب سنگین مالی بدعنوانیوں، بڑے پیمانے پر کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال میں ملوث  پائے جانے اور اس کے نتیجہ میں عوامی خزانہ کو کروڑوں اور اربوں روپے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے میگا اسکینڈلزکو بے نقاب کرنے کی پاداش میں آئے دن صحافیوں پر دباؤ ڈالنے، ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے اور انہیں اور ان کے اہل خانہ کو جان سے مارنے کی دھمکیوں میں دن بدن اضافہ ہورہاہے۔

نیو یارک میں قائم صحافیوں کے تحفظ کی عالمی انجمن، کمیٹی برائے تحفظ برائے صحافی(Committee to Protect Journalists) کے مطابق پاکستان میں ان طاقتور گروہوں کے احکامات  نہ ماننے کی پاداش میں 1992ء سے2022ء تک 96  صحافی اپنی قیمتی زندگیوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ملک میں ہر سطح پر انتہائی طاقتور گروہوں، مفادات پرست عناصر، جرائم پیشہ گروہوں اور بااثر مسلح افراد کا غلبہ ہے۔جس کے باعث ان جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے آئے دن فرض شناس صحافیوں کو ان کے پیشہ ورانہ فرائض سے روکنے اور انہیں اپنے راستے ہٹانے کے لئے قتل کئے جانے کی دھمکیوں کوو مدنظر رکھتے ہوئے اخباری اداروں اور نیوز ٹی وی چینلز کی جانب سے اپنے صحافیوں اور رپورٹروں کی جان و مال کی حفاظت کی ضمانت اور ان کی زندگی کے تحفظ کے لئے بیمہ(Life Insurace) کی سہولت فراہم کرنے کی فوری ضرورت ہے۔

 شعبہ صحافت کی موجودہ حالت زار:  اگرچہ ایک زمانہ تک صحافت طباعت اور براڈکاسٹنگ تک محدود تھی۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رواں صدی میں برق رفتار رابطوں کی سہولت میسر آنے کے بعد کے دور میں صحافت کی کئی مزید جہتیں سامنے آئی ہیں۔ جن میں پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا قابل ذکر ہیں۔ رابطہ کے جدید اور برق رفتار ذرائع مہیا ہونے کے باعث موجودہ دور میں صحافت کے پیشہ کو بہت فروغ حاصل ہوا ہے۔ ملک میں جاری سیاسی اور معاشی بحران اور امن و امان کی ابتر صورت حال کے باعث پرنٹ،الیکٹرونک اور ڈیجیٹل میڈیا کے اداروں کے مابین سبقت حاصل کرنے کے لئے انتہائی جلد بازی اور عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بریکنگ نیوز(Breaking News) کے نام پرسب سے پہلے خبر جاری کرنے اور نشرکرنے کی ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔پاکستان جیسے غیر ترقی یافتہ اور سخت معاشی بحران کے شکار ملک میں درجنوں نجی ٹی وی چینلز اپنی24گھنٹے نشریات کے ذریعہ صحافت کے مقدس نام پرمحض اپنے ذاتی اور کاروباری مفادات کے حصول کئے بیشترناخواندہ اور معصوم عوام الناس پر ہر گھنٹہ بعدسچی، جھوٹی اور من گھڑت اور سنسنی خیز خبروں کی مسلسل بوچھاڑ کئے ہوئے ہیں۔ جس کے باعث قوم میں ملک کی درست صورت حال اور اصل حقائق سے واقفیت اور آگہی کے بجائے ان میں سخت اضطراب، ذہنی مسائل، خلفشار اور زبردست انتشار جنم لے رہا ہے ۔حتیٰ کہ اب پاکستانی میڈیا اپنے اصل فرائض اور ذمہ داریاں فراموش کرکے ملک کی دیگر آئینی اور قانونی قوتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھاری معاوضوں اور ترغیبات کے لالچ اپنی من پسند سیاسی شخصیات کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے اور منتخب حکومتوں کواقتدار سے محروم کرنے کے ناپاک کھیل میں کنگ میکر کا روپ دھار گیا ہے۔

صحافیوں کا بدترین استحصال:  برصغیر میں دو صدیوں کے دوران صحافت لیتھو گرافی، برقی پرنٹنگ، آفسٹ پرنٹنگ سے گزرتی ہوئی الیکٹرونک اور ڈیجیٹل میڈیا تک کا سفر طے کرچکی ہے۔دنیا میں ٹیکنالوجی کے تیز تر انقلاب کے باعث موجودہ دور میں معاشرہ کے ہر خواندہ اور ناخواندہ فرد کی دسترس میں کثیرالمقاصد اسمارٹ فون آگیا ہے۔ جس میں فوری رابطہ، صدا بندی،تصویر کشی اورعکس بندی کی سہولیات کی بدولت اب ہر ایر اغیرا صحافی بن گیا ہے۔جو صحافت کے مقدس اور ذمہ دار پیشہ کے لئے ایک نہایت ہی خطرناک رحجان ہے۔ ملک میں الیکٹرونک اور ڈیجیٹل میڈیا کے دن بدن عروج کے باعث اب روائتی اخباری صنعت تیزی سے دم توڑ رہی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں اشاعت والے روزنامے اب سینکڑوں پر آگئے ہیں یا سرے سے بند ہوچکے ہیں۔اخباری مالکان نے اپنے اخبارات کی کمائی کے بل پر اب سٹیلائٹ نیوز ٹی وی چینلز اور دیگر منافع بخش کاروبار قائم کر لئے ہیں اور آزمائش کے اس موقع پر اپنے برسہا برس سے خدمات انجام دینے والے پرانے عامل صحافی ملازمین اور کارکنوں کو یکسر فراموش کردیا ہے جنہوں نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے ان موقر اخبارات کو بام عروج پر پہنچایا تھا۔

اخباری مالکان کے ان سخت ظالمانہ اقدامات،بدترین استحصال اور صحافیوں کی سنگین حق تلفی کے باعث ان اخباری اداروں کے صحافی ملازمین اور کارکنان نامساود حالات میں اپنے فرائض انجام دینے کے باوجود نہ صرف اپنی کئی کئی ماہ کی تنخواہیں سے محروم ہیں بلکہ30اور40برسوں سے اخباری اداروں میں شاندار خدمات انجام دینے کے بعد ملازمت سے ریٹائر ہوجانے والے بیشترصحافیوں کو ان کے لاکھوں روپے کے جائز واجبات پروویڈنٹ فنڈ، گریجویٹی، لیو انکیشمنٹ،علاج و معالجہ اورEOBIپنشن کی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ متعدد صحافی اپنے جائز واجبات کی حسرت لئے اس دنیا سے خالی ہاتھ ہی رخصت ہوگئے ہیں۔ ان مظلوم اور ستم رسیدہ بزرگ صحافیوں اور ان کے لاوارث پسماندگان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور صنعت صحافت کے متعلقہ سرکاری اداروں وزارت اطلاعات و نشریات، صوبائی انفارمیشن ڈپارٹمنٹ، اخبارات کے ملازمین کے لئے عملدرآمد ٹریبونل (Implemetation Tribunal for Newspaper Employees)، 1973ء سے قائم شدہ صحافیوں کی اجرتوں میں اضافہ کے ویج بورڈ ایوارڈ،لیبر عدالتوں، صنعتی تعلقات کے قومی کمیشن(NIRC)،اعلیٰ عدلیہ اور وفاقی محتسب کی ”غریبوں کی عدالت“ کی موجودگی کے باوجود اکثر اخبارات اورنیوز ٹی وی چینلز میں ملازم صحافیوں اور کارکنوں کے ساتھ زبردست ذہنی، جسمانی اور مالی استحصال کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

 صحافت زوال پذیر ہے!:

 نجی سٹیلائٹس ٹی وی چینلز نے صحافت جیسے عظیم اور مقدس پیشہ کے نام پر بٹہ لگادیا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کے درجنوں نیوز چینلز محض اپنے کاروباری   مفادات کے تحفظ اور منافع خوری کے لئے صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئین اور قانون،نظام حکومت اور جمہوریت کی اقدار کی پیچیدگیوں سے ناواقف بھولے بھالے عوام الناس کو24گھنٹے تازہ ترین خبروں کے نام پر ڈس انفارمیشن اور پروپیگنڈہ نشر کرکے ان کے ذہن کو منتشر اور ماؤف کر نے  میں جتے ہوئے ہیں۔لیکن وزارت اطلاعات و نشریات اور پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(PEMRA)  اپنے فرائض سے مجرمانہ غفلت برتتے ہوئے خاموش ہیں۔

برصغیر میں صحافت نے تقریبادو سو برسوں کے دوران قاصدوں، ڈاک گھوڑا گاڑیوں،تار برقی سے لے کر ٹیلی پرنٹر، ٹیلیکس، فیکس، فوٹو کاپی، ای میل، واٹس ایپ اور ٹوئٹر تک کا طویل سفر طے کیا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں برق رفتار ذرائع اطلاعات اور لمحہ لمحہ خبروں کی بھرمار کے باعث اشاعت پذیر اور نشر ہونے والی خبروں کے معیار، ان کی جانچ پڑتال اور تصدیق کا عمل نہ ہونے باعث اب خبروں میں اصل خبریت، اطلاعات،معلومات، حقائق اور غیر جانبداری کا لازمی عنصربرقرار نہیں رہا۔

شعبہ صحافت کے مختلف حصوں پرنٹ،الیکٹرونک اور ڈیجیٹل میڈیا کے انتہائی جانبدارانہ، غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اوراخبارات کی صنعت کو درپیش موجودہ بحرانی کیفیت کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اب صحافت کا پیشہ خدمت قوم،آزادی صحافت اور اظہار رائے کی علمبرداری کے بجائے محض وسیلہ روزگار بن گیا ہے۔(اسرار ایوبی)۔۔

                اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب اور مختلف ویب سائٹس سے استفادہ کیا گیا۔

                -1  اخبار کی کہانی  از  غلام حیدر

                ترقی اردو بیورو،نئی دہلی،  اشاعت1988ء

                -2  اسلام کا قانون صحافت

                  از  ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی،  اشاعت1988 ء لاہور

                 -3تاریخ صحافت

                از  محمد افتخار کھوکھر، مقتدرہ اردو زبان، اسلام آباد  اشاعت 1995ء

                -4  فیچر، کالم اور تبصرہ

                از محمد اسلم ڈوگر، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد  اشاعت1998ء

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں