تحریر : عمیر علی انجم
میرے عزیز دوست رانا سعید دوشی نے کہا تھا کہ ”کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا ،میں غم شناس مروت میں مارا جاؤں گا ۔۔میں مارا جاؤں گا پہلے کسی فسانے میں ،پھر اس کے بعد حقیقت میں مارا جاؤں گا ” مجھے غم مارے جانے کا نہیں ہے ،مجھے تو غم بس ا س بات کا ہے کہ آخر میں مارا کن ہاتھوں میں جارہا ہوں ۔۔۔ایک تخلیق کار بھلا ایک ”تار اٹھانے والے” سے کیا مقابلہ کرے ۔۔ میں تو اس مقابلے میں شریک ہی نہیں تھا ۔۔”مجھے تو دشمن بھی باظرف چاہیے” جن صاحب کو کسی ڈیکوریشن کی دکان پر ہونا چاہیے تھا اور ان کی ذمہ داری لوگوں کے گھروں اور مساجد میں چراغاں کرنا ہونا چاہیے تھی۔وہ نیوز چینلز میں بیورو ہیڈز بن جائیں تو مجھ سا تخلیق کار تو خود اپنی موت آپ ہی مرجاتا ہے ۔میری قابلیت میرا کام ہے اور ان صاحب کی قابلیت ایک بڑے اینکر کے گھر کا سودا سلف لانا تھی ۔بھائی کوئی ان سے پوچھے کہ یہ کیا قابلیت ہے ؟؟؟ مجھے تو ایک صاحب نے بتایا کہ مذکورہ بیورو چیف اپنے چیکس بھی ان سے لکھواتے ہیں ۔اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو وہ اس بات کی تردید کردیں ۔غضب خدا کا !کیا ہم نے یہ دن بھی دیکھنے تھے ۔کسی قوال کے پیچھے تالیاں پیٹنے والے ”بیورو چیف” صاحب نے ادارے میں تالیاں پٹوانے کے لیے کچھ چمچے رکھے ہوئے ہیں اور چمچے بھی وہ جو دیگ میں استعمال کیے جاتے ہیں ۔اب بھلا میرا اور ان کو کیا مقابلہ ۔میری اور ان کی قابلیت کا کیا مقابلہ ۔اصل میں مجھے دکھ ان کا بھی ہے ۔۔نجانے کیا کیا جتن کرکے وہ اس عہدے تک پہنچ تو گئے ہیں لیکن بحران کے اس دور میں اگر ان کی چھٹی کردی جاتی ہے تو ان کو نوکری کون دے گا ۔میری ہاتھ جوڑ انکے ادارے کے ذمہ داران سے درخواست ہے کہ ”بیورو چیف” صاحب کو بے شک مالکان کے گھر کا سودا سلف لانے (جس کا ان کو تجربہ بھی ہے) کی ذمہ داریاں دے دیں لیکن ان کو فارغ نہیں کیا جائے ۔۔ہمارا المیہ یہی ہے کہ جس کو جہاں ہونا چاہیے وہ وہاں نہیں ہے ۔میں صرف ایک ادارے کی بات نہیں کررہا ہوں ۔۔ہر جگہ یہی صورت حال ہے ۔خیر ”بیورو چیف” صاحب پہلے اسکرپٹ لکھوانے کے لیے اپنی خدمات چاہتے تھے اب کاسہ لیسی تومیں کرسکتا نہیں تواس لیے یہ صاحب بھڑک گئے ۔۔ایک محاذ بنالیا گیا ۔۔اب انکے لشکر میں جو لوگ تھے بخدا ان کے بارے میں سوچ کر بھی ہنسی آتی ہے ۔میں نے سوچا تھا کہ جس روز نوکری چھوڑو ںگا ان کے بارے میں تفصیل سے لوگوں کو آگاہ کروں گا ۔”کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں” اچھا یہ صاحب ایک اور کام مجھ سے چاہتے تھے وہ یہ تھا میں ان کی سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کرواؤں تاکہ وہ اپنی ”پی آر” مضبوط کرسکیں ۔۔ان لوگوں نے صحافت کو تعلقات بنانے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے میں نے ان کا آلہ کار بننے سے انکار کیا تو انہوں نے ایک صاحب سے کہا کہ یہ کیسا پاگل آدمی ہے ۔اس کو نوکری کرنی ہے یا نہیں ؟؟میں پھر بھی نوکری کرتا رہا کیونکہ میرا کام میرا اعتبار ہے ۔اپنی ”محلاتی سازشوں” میں ناکامی دیکھ کر انہوں نے ہر وہ اوچھا ہتھکنڈا استعمال کرنا شروع کردیا جو ایک ”تار والا” کرسکتا تھا ۔۔ میں نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا ۔۔وہ ہے نا کہ ”عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں” یہ بات ان صاحب صادق آتی ہے ۔۔آخرمیں چلتے چلتے مجھے نظام سقہ یاد آرہا ہے ۔۔جس کو ایک دن کیلئے بادشاہ بنایا گیا تھا ۔۔اس نے بادشاہ بنتے ہی سب سے پہلے یہ حکم جاری کیا تھا کہ اس کے نام سے سکہ جاری کیا جائے تاکہ تاریخ میں اس کا نام زندہ رہ سکے ۔۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم صحافت کے ”نظام سقائی” دور میں زندہ ہیں جہاں ہر نظام سقہ اپنی ایک دن کی بادشاہت بچانے کے لیے اپنے نام کے سکے جاری کروارہا ہے اور ہم ایسے تخلیق کار آپ اپنا نوحہ لکھ کر کوئی تو ہوگا ”دکھ کا درماں” کی صدائیں لگارہے ہیں ۔۔(عمیر علی انجم)۔۔
(عمران جونیئر ڈاٹ کام کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)۔۔