sahafat ka janaza hai

صحافت کا جنازہ ہے۔۔

تحریر: عامر متین۔۔

پورے پاکستان میں بچ جانیوالے دو تین غیر جانبدار صحافیوں میں سے ایک نامور صحافی عامر متین کے قلم سےدل کو چیرنے والی تحریر ۔

صحافی بھائیوں میں اس وقت لڑائ جاری ہے کہ کون نواز شریف کے ساتھ آئے گا۔ کون بزنس کلاس میں بیٹھے گا اور کون اکانومی میں۔ کون نواز شریف کے قریب کرسی پائے گا۔ یقین اتنے بڑے موقعے پر موجود ہونا اک صحافتی موقعہ، سعادت یا اعزاز بھی ہے۔مگر یہ واضح نہیں کہ  اس کے پیسے کون ادا کر رہا ہے۔کیا چینل یا صحافی یہ خرچہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر نہیں تو کیا ان کو ن لیگ کا بیانیہ پیش کرنا ہو گا۔ اس وقت یہ اک اعزاز سمجھا جا رہا ہے مگر بھلے وقتوں میں کسی سیاسی پارٹی کے خرچے پر سفر کرنا شرم کا مقام ہوتا تھا۔ میڈیا ادارے بھی اس شرمناک الزام سے بچنا چاہتے تھے۔ کیا وقت آ گیا ہے۔؟شرم آتی ہے صحافی ہونے پر کہ صحافی اک سیاسی پارٹی سے ٹکٹ لے کر اس کا پراپیگنڈا کرنے کو فخر سمجھتے ہیں اور انکے ادارے بھی اسے اچھا گردانتے ہیں،اچھے زمانوں میں ڈان اخبار کے ایڈیٹر ادارے کی اجازت کے بغیر سرکاری دورے پر جانے پر نوکری سے نکال دیے جاتے تھے۔ مگر اب بےشرمی سے قیدی انٹرویو کو بغیر تناظر کے دکھا کر فخر کرتے ہیں،اور کوئ با عزت کہلانے والا صحافی اس بات پر نا استعفا دیتا ہے نا بات کرتا ہے۔ اور پھر صحافت اور معاشرے میں عزت بھی چاہتا ہے۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں یہ دن دیکھوں گا۔ بڑے بڑے صحافی اور بڑے بڑے ادارے اک راکھ کے ڈھیر کی طرح بیٹھ جائیں گے۔ میں خود بھی شرمسار ہوں کہ میں بھی اپنا کردار اس طرح ادا نہیں کر رہا جس طرح میں نے ہمیشہ سوچا تھا۔ مگر اپنے سے بڑے لوگوں اور اداروں کو اتنا چھوٹا دیکھتے ہوئے اپنی شرم کم محسوس ہوتی ہے۔خدا مجھے اور ان کو حوصلہ دے کہ ہم اپنا فرض نبھا سکیں۔

اپنے ٹوئیٹ میں ایک صارف کا جواب دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ۔۔‏بہت اچھا سوال ہے۔ صحافی بننے کا کوئی معیار نہیں, بڑے شہروں کو چھوڑیں ٹی وی چینلوں کو وہ غنڈا یا وہ مفتہ چاہیے ہوتا ہے جو ان کو کوئی پیسے بھی دلوا دے، مقامی کیبل میں اچھے نمبر پر بھی دکھلا دے، جس کو پیسے بھی دینے نہ پڑیں اور وہ پوری انتظامیہ کو بلیک میل کر کے ان کے مفادات کا بھی تحفظ تو چھوڑیں مال بھی دلوا سکے، یہ ہے آج کی جرنلزم، ہر قصبے کے سب سے بڑے غنڈے اور مفاد پرست صحافی کہلاتے ہیں اور میڈیا مالکوں کو ان کی ضرورت ہے،صحافی ہونے کا کوئی پیمانہ نہیں، آپ بلیک میلنگ بھی کریں اور عزت بھی چاہیں؟دونوں چیزیں ممکن نہیں، ہمارے صحافتی اداروں کے عہدیدار اس نظام کی پیداوار ہیں اور اس نظام کو ہی فروغ دینگے، مر گئے نثار عثمانی یا برنا صاحب، اب تو بٹ صاحب کا نظام ہی چلے گا۔(عامر متین)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں