تحریر: جاوید چودھری۔۔
ہماری زندگی میں دوسرا رخ بہت اہم ہوتا ہے‘ ہمیں چاہیے ہم جب بھی پہلے رخ کو دیکھیں‘ ہم کوشش کریں ہم دوسرا رخ بھی تلاش کریں کیونکہ یہ عین ممکن ہے اصل حقیقت دوسرا رخ ہو‘ مجھے یہ تجربہ جمعہ 18 جنوری ہی کو ہوا‘ سی پی این ای (Council of Pakistan Newspaper Editors) نے اسلام آباد میں میڈیا اینڈ ڈیموکریسی پر کنونشن منعقد کیا‘ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا ایسا میڈیا کنونشن تھا جس میں ملک بھر کے پریس کلب بھی شریک تھے‘ صحافیوں کی تنظیمیں بھی‘ ملک کے نامور صحافی‘ ایڈیٹر‘ میڈیا مالکان‘ ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے سی ای او اور اینکر پرسنز بھی اور حکومت اور اپوزیشن کے نمایندے بھی‘ ملک میں پہلی بار جمہوریت اور میڈیا پر کھل کر بات ہوئی‘ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی‘ وزیر اطلاعات فواد چوہدری‘ مریم اورنگزیب اور نیئر بخاری نے بھی کنونشن میں کھل کر بات کی‘ میڈیا کے تمام اسٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے اور بے لاگ بات چیت کی‘ میں نے کنونشن میں مالکان کے کاروباری مفادات اور سیاسی ایجنڈے پر بات کی‘ میرے دوست اور گروپ ایڈیٹر ایاز خان نے اس کا بہت خوبصورت جواب دیا۔
ان کا کہنا تھا بے شک میڈیا کی انڈسٹری میں سرمایہ کار‘ صنعت کار اور تاجر آئے لیکن یہ فیلڈ آج جس خوشحالی کو انجوائے کر رہی ہے یہ صرف اور صرف ان لوگوں کی مرہون منت ہے‘ یہ لوگ صحافت میں نہ آتے تو ہم آج بھی ہونڈا سی ڈی 70 پر ہوتے‘ میں نے ان سے اتفاق کیا‘ یہ حقیقت ہے 2000ء تک صحافت صرف تین گروپوں تک محدود تھی‘ یہ لوگ خود ارب پتی تھے لیکن صحافی خون تھوک رہے تھے پھر بڑے صنعتی گروپ آئے اور صحافیوں کے دن پھرنا شروع ہو گئے‘ ٹیلی ویژن نے خوشحالی کے اس سفر کو مزید بہتر کر دیا‘ ایکسپریس کے سی ای او اعجاز الحق نے کہا‘ 2000ء تک صحافتی مالکان صحافت سے کما کر دوسرے شعبوں میں لگاتے تھے لیکن پھر ایسے لوگ آئے جنہوں نے دوسرے شعبوں سے کمایا اور صحافت میں لگا دیا‘ یہ ایک ایسا دوسرا رخ تھا جس سے زیادہ تر لوگ ناواقف تھے‘ کنونشن میں حکومت کو صحافتی برادری اور صحافتی برادری کو حکومت کا موقف سمجھنے کا موقع بھی ملا‘ شرکاء نے تسلیم کیا صحافت کا گلہ گھونٹا جا رہا ہے۔
ملک میں ایک ان دیکھا خوف موجود ہے‘ ہر شخص پریشان ہے اور یہ پریشانی صحافت کے ذریعے پورے ملک میں پھیل رہی ہے‘ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میڈیا کے کندھوں پر بیٹھ کر ایوان اقتدار میں داخل ہوئی‘ میڈیا نے جتنی عمران خان کو سپورٹ دی اتنی سپورٹ آج تک کسی دوسرے لیڈر کو نہیں ملی لیکن عمران خان نے حکومت میں آ کر سب سے پہلے میڈیا کو ٹارگٹ کیا‘ میڈیا نے حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی سسکنا شروع کیا اور یہ اب ایڑیاں رگڑ رہا ہے‘ اخبارات بند ہو رہے ہیں اور ٹیلی ویژن چینلز ڈاؤن سائزنگ کے عمل سے گزر رہے ہیں‘ یہ سلسلہ اگر چلتا رہا تو میڈیا کے لیے سانس لینا مشکل ہو جائے گا اور یہ حقیقت ہے میڈیا اور جمہوریت دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں‘ صحافت نہیں رہے گی تو پھر جمہوریت بھی ممکن نہیں ہو گی‘ اس کنونشن میں فیصلہ ہوا تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر میڈیا کو بچانا ہوگا ورنہ پھر ہمیں جمہوریت کا جنازہ پڑھ لینا چاہیے اور یہ وہ دوسرا رخ تھا جس سے سانحہ ساہیوال کی طرح زیادہ تر لوگ ناواقف تھے‘ یہ میڈیا کے بحران کو صرف میڈیا کا بحران سمجھ رہے تھے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔