تحریر: حجاب رندھاوا۔۔
میڈیا مالکان اور صحافتی تنظیموں کے مطابق نئی میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی میڈیا کی آزادی پر حملہ ہے اس لیے ہم اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور دھرنا دینے جا رہے ہیں۔
آخر میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی ہے کیا جو آزادی صحافت پر حملہ آور ہو گئی ہے ؟؟
آپ نے دیکھا ہو گا چینلز پہ اکثر فیک نیوز چلائی جاتی ہیں لیکن اگر پیمرا ان چینلز کو بغیر تصدیق غلط اور بےبنیاد خبر چلانے پر 10 لاکھ تک جرمانہ عائد کرتا ہے تو چینلز عدالتوں کا رخ کرتے ہیں سٹے لے لیتے ہیں چنانچہ پیمرا کا حکم غیر موثر ہو جاتا ہے نئے قانون کے مطابق اب یہ جرمانہ 10 لاکھ تک محدود نہیں ہو گا بلکہ 25 کروڑ روپے تک عائد کیا جا سکے گا اور میڈیا مالکان اس جرمانے کے خلاف اسٹے لینےہائی کورٹ کا رخ نہیں کر سکیں گے اگر میڈیا اتھارٹی غلط خبر پر جرمانہ عائد کرتی ہے تو آپ سپریم کورٹ جا سکیں گے۔
اب اس کو آپ آزادی صحافت پر حملہ کیونکر گردان سکتے ہیں؟؟اگر آپ تصدیق شدہ اور سچی خبر چلا رہے ہیں تو آپ کو اس بل سے کیا خدشہ ہے آپ کے پاس خبر کا پروف ہے تو میڈیا اتھارٹی آپ کا کیا بگاڑ سکتی ہے؟
اس احتجاج میں صف اول پر میڈیا مالکان کا دستہ ہے۔۔میڈیا مالکان کے احتجاج کی بہت مضبوط وجہ ہے۔۔
جیو نیوز سے لیکر وقت نیوز تک درجنوں چینلز کئی کئی ماہ ورکرز کو تنخواہیں ادا نہیں کرتے تنخواہیں مانگنے پہ ان پہ من گھڑت الزامات لگا کر نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔۔یہی حال ان میڈیا ہاوسسز کے زیر انتظام چلنے والے پرنٹ میڈیا کا ہے جنگ ایکسپریس نوائے وقت، خبریں سمیت تمام پرنٹ میڈیا گروپس ورکرز کا جو استحصال الیکٹرانک میڈیا میں کر رہے ہیں وہ پرنٹ میڈیا میں ایک عرصے سے جاری ہے صحافی کئی کئی ماہ تنخواہ کی امید پر کام کئیے جاتے ہیں لیکن تنخواہ مانگنے پر لات مار کر ادارے سے باہر اور اخبار میں اشتہار آویزاں کر دیا جاتا ہے مشتری ہوشیار باش فلاں رپورٹر ادارے کے ساتھ فراڈ کر کے فرار ہو گیا اب ادارہ رپورٹر کے قول و فعل کا زمہ دار نہیں،،،
صحافی عرصہ دراز سے اس پہ احتجاج کرتے آ رہے ہیں کئی صحافی غربت و تنگدستی کے باعث دار فانی سے کوچ کر گئے۔
ان میڈیا مالکان کو اس میڈیا اتھارٹی سے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اب پاکستان میڈیا ڈویلمپنٹ اتھارٹی کے تحت میڈیا ٹریبونل کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ دس رکنی ٹریبونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کے سابق جج کو تعینات کیا جائے گا۔میڈیا ورکرز تنخواہیں ناں ملنے پہ میڈیا مالکان کے خلاف ٹربیونل میں جا سکیں گے اس ٹربیونل کے پاس عدالتی اختیار ہو گا یہ ٹربیونل اس ادارے سے جواب طلبی کرے گا آپ نے تنخواہ کیوں نہ دی آپ نے ورکر کو کیوں نکالا؟میڈیا ٹریبونل کے فیصلے حتمی ہوں گے اور انہیں صرف سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ورکنگ جرنلسٹس کے حقوق کے تحفظ اور ویلفیئر کے نام سے موجود پریس کلب اور یونین پر شروع سے آج تک ایسے مفاد پرست لوگوں کا قبضہ رہا ہے جو خود کو ورکنگ جرنلسٹ ظاہر کرکے دراصل میڈیا ہاوسسز مالکان کے مالی تحفظ کے لئے کام کرتے چلے آرہیے ہیں،
یہاں میڈیا ہاوسسز کے مالکان کے مفادات پر ضرب پڑتی ہیں وہی یہ صحافتی تنظیمیں باہر نکل آتی ہیں۔۔
لیکن آج تک کوئی بھی صحافتی تنظیم ان غریب صحافیوں اور کیمرہ مین کے لیے احتجاج کرتی نہیں پائی گئی جو کئی کئی ماہ تنخواہ ناں ملنے پہ بھوک ہڑتال کئیے بیٹھے رہے اور کئی اس دوران وفات پا گئے۔
یہ صحافتی تنظیمیں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، نیشنل پریس کلب، لاہور پریس کلب، پنجاب یونین آف جرنلسٹس بشمول اے پی این ایس ، پی بی اے اور سی پی این ای میڈیا مالکان کے مالی تحفظ کے لیے قائم کی گئی ہیں چنانچہ ان کا احتجاج اس وقت تو ضرور بنتا ہے۔
یہ وہ میڈیا ہاؤسز مالکان ہیں جنہوں نے چینلز چلانے کے علاوہ کئی ناموں سے اخبارات اور میگزین کے ڈیکلریشن بھی لے رکھے ہیں جو. انکے اپنے اور خاندان کے ہر فرد کے نام سے جاری ہو چکے ہیں ان ڈمی نیوز پیپرز کو ریگولر ظاہر کرکے وفاقی ادارہ پی آئی ڈی۔۔اور صوبائی انفارمیشن ڈیپارٹمنٹس جیسا کہ ڈی جی پی آر میں موجود کالی بھیڑوں سے مک مکا کر کے کروڑوں روپے کے سرکاری اشتہارات اینٹھ لئے جاتے رہے ہیں۔
سائیکل کو ترسنے والے لینڈ کروزرز اور اس سے بھی مہنگی گاڑیوں کے مالکان بن چکے ہیں ان میڈیا ہاؤسز مالکان. کے لاہور، اسلام آباد سمیت ملک کے بڑے شہروں میں بنگلے اربوں کے کاروبار ہیں یہ میڈیا مالکان ہر بزنس ٹائکون کے محافظ ہوتے ہیں شہر کا ہر 2 نمبر دھندہ ان کو بھتہ دیکر چلتا ہے۔
لیکن ہمارے ملک میں ابھی تک ایسا کوئی قانون نہیں جو ان سے اس ناجائز دولت کے زرائع پوچھ سکے کیونکہ ہر حکومت کو بلیک میل کرنا اپنی مرضی کا بیانیہ عوام تک پہنچانا صحافتی کاروبار ہے۔۔سابقہ ادوار میں ان مالکان نے اسلام آباد اور لاہور میں خود کو بطور پبلشرز جبکہ اولادوں کو ایڈیٹر یعنی ورکنگ جرنلسٹ ظاہر کر کے جرنلسٹ سوسائٹیوں میں مہنگے سرکاری پلاٹس ہتھیائے ہیں،جبکہ یہ اپنے اخبارات اور چینلز میں ورکنگ جرنلسٹ کو 25 ہزار ماہانہ تنخواہ پر اپائنٹ کرنے کے بعد کئی کئی ماہ مفت 18، 18 گھنٹے کام لینے کے بعد وہ 25 ہزار بھی پی جاتے ہیں۔
حکومت میڈیا اتھارٹی قائم کرنے جارہی ہے جو صرف ورکنگ جرنلسٹ کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہے یہ یقیناً بہت بڑا کام ہے اسی طرح سے اس میں ادھورا پن بھی ہے کیونکہ اس اتھارٹی میں سرکاری خزانے کو نقصان پہنچا کر مالی فائدہ اٹھانے والوں اور آمدن سے زائد اثاثہ جات بنانے والوں کا احتساب کرنے کی کوئی شق موجود نہیں ہے،اگر سرکاری ملازمین، سیاست دانوں کو آمدن سے زائد اثاثہ جات میں نیب قانون کے تحت شکنجے میں لیا جاسکتا ہے تو ان اژدھوں کو احتساب کے عمل سے کیوں نہیں گزارا جا سکتا،،
جو صحافی نما اینکرز اور یوٹیوبرز میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے خلاف دھرنا دینے جا رہے ہیں حقیقی ورکنگ جرنلسٹس سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ یہ کبھی بھی بےروزگار نہیں ہوئے کیوں کہ اگر کبھی ادارے سے انکے ملک و سلامتی کے اداروں کے خلاف سرگرمیوں کی وجہ سے ہٹانا مقصود بھی ہوتا ہے تو انہیں مختلف ذرائع سے مالی فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔
یہ مافیا (میڈیا ہاوسسز مالکان) کے مالی تحفظ کے لئے میدان میں آچکا ہے اور اب پارلیمنٹ سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب کے موقع پر پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیا جس سے آزادی صحافت کی آڑ میں پاکستان کی بدنامی ہوئی، اس طرح ایک پنتھ دوکاج کے مصداق میڈیا اتھارٹی کے قیام سے حکومت کو باز رکھنے کی کوشش کی جائے اور ساتھ بین الاقوامی برادری کی توجہ اس اہم. موقع پر مبذول کروا کر پاکستان کو بدنام کیا کہ خدانخواستہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے کا گلہ گھونٹا جارہا ہے۔( حجاب رندھاوا)۔۔