تحریر: ڈاکٹر توصیف احمد خان۔۔
والد نے نام اختر رحمن رکھا۔ صحافت کے پیشے میں آئے تو آئی اے رحمن کے نام سے معروف ہوئے۔ اختر رحمن نے بچپن سے بغاوت کا علم بلند کیا اور زندگی کی آخری رمق تک بغاوت کے علم کو بلند رکھا۔ آئی اے رحمن کے انتقال کو تین سال گزرگئے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکن آج بھی رحمن صاحب کی کمی کو محسوس کرتے ہیں۔
معروف عوامی تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی آئی اے رحمن کی یاد داشتوں پر مشتمل کتاب “A Life Time of Dissent Amemoir” میں لکھتے ہیں کہ آئی اے رحمن عوامی دانشور تھے جنھوں نے اپنی زندگی مظلوم طبقات کے حقوق کے تحفظ، انسانی حقوق کی بالادستی اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے اور آزادئ صحافت کے تحفظ کے لیے وقف کردی تھی۔
آئی اے رحمن پہلی دفعہ اس وقت معتوب ہوئے جب انھوں نے اسکول میں اپنے ایک ہندو دوست کو اپنے ناشتے میں سے ایک کوفتہ زبردستی کھلانے کی کوشش کی۔ کم عمری میں اس بچے کے ذہن میں ذات اور مذہب کی تقسیم کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اس جرم میں اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے ننھے طالب علم کو نظم و نسق کی خلاف ورزی پر چھڑی سے مارنے کی سزا دی۔ آئی اے رحمن کا تعلق متحدہ پنجاب کے ضلع گڑگاؤں کے ایک چھوٹے سے گاؤں حسن پور سے تھا۔ حسن پور کے مکین بلوچستان سے عظیم بلوچ سردار چاکر خان رند کے لشکر کے ساتھ مغل بادشاہ ہمایوں کو دہلی کا تخت واپس دلانے آئے تھے۔ہمایوں نے ان بلوچوں کو دریائے جمنا کے ساتھ آباد کیا تاکہ دارالخلافہ دہلی کی سیکیورٹی کو مضبوط کیا جائے۔ رحمن کے والد عبدالرحمن وکیل تھے اور حسن پور کے قریب تحصیل بلول میں وکالت کرتے تھے۔ عبدالرحمن ایک ترقی پسند انسان تھے۔ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کے ایک کسان رہنما مطلبی فرید آبادی ان کے دوستوں میں شامل تھے۔
عبدالرحمن کانگریس کے رہنما مولانا ابو الکلام آزاد کی جدوجہد سے خاصے متاثر تھے، یوں آئی اے رحمن ابتدائی عمر میں ترقی پسند نظریات سے متعارف ہوئے۔ انھیں میٹرک کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی بھیج دیا گیا۔ آئی اے رحمن علی گڑھ یونیورسٹی کے ترقی پسند طلبہ کے ساتھ منسلک ہوئے۔ حسن پور میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ رحمن صاحب فخر سے بتاتے تھے کہ ان کے دادا خود کاشت کرتے تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے جب پاکستان کا نعرہ لگایا تو مذہبی انتہا پسندی تیزی سے پھیل گئی۔ 14 اگست 1947کو ہندوستان کا بٹوارہ ہوا۔پنجاب تاریخ کے بدترین فسادات کا شکار ہوا۔ انتہا پسند ہندو بلوائیوں نے حسن پور میں بدترین قتل عام کیا۔ رحمن صاحب کے بیشتر قریبی رشتے دار اس فساد کی نذر ہوئے۔ آئی اے رحمن اس وقت علی گڑھ یونیورسٹی میں تھے، ان کی جان بچ گئی۔ان کے والد نے زندہ بچ جانے والے خاندان کے ان افراد سمیت گاؤں کے باقی افراد کو جمع کیا، یوں آئی اے رحمن گاؤں والوں کے ساتھ ایک مال گاڑی میں بیٹھ کر پاکستان آگئے، مگر رحمن صاحب نے اپنے اس ذاتی نقصان کو نفرت کے بجائے محبت کے پیغام میں تبدیل کیا اور ان فسادات کی حقیقی وجوہات کا ادراک کیا اور ساری زندگی پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات اور دونوں ممالک کے شہریوں کے درمیان دوستی کی رکاوٹوں کو دور کرنے کی جدوجہد میں گزاری۔آئی اے رحمن نے پنجاب یونیورسٹی سے فزکس میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصہ ترقی پسند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک رفاہی اسکول چلانے کی کوشش کی۔ پھر انھیں ا س وقت کے انگریزی کے سب سے بڑے اخبار پاکستان ٹائمز میں ملازمت مل گئی۔ آئی اے رحمن کو پہلے فلمی صفحے کی ذمے داریاں سونپی گئیں۔ اس وقت معروف ادیب اور ایڈیٹر مسعود اشعر اور علی سفیان آفاقی نے بھی فلمی صحافت شروع کی تھی، یوں یہ تینوں افراد فلمی رپورٹنگ کے لیے لاہورکے اسٹوڈیو میں جاتے تھے۔اے ٹی چوہدری، آئی اے رحمن، حمید ہاشمی، منو بھائی، عبداﷲ ملک اور حمید اختر وغیرہ نے صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کو منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے تحت ’’جاننے کے حق‘‘ کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس میں ایک سیشن کی صدارت کرتے ہوئے رحمن صاحب نے کہا تھا کہ انھوں نے اس وقت پاکستان ٹائمز سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا مگر سینئر دوستوں کے فیصلے کے تحت اپنا ارادہ ملتوی کیا، البتہ اپنے ایڈیٹر کو واضح کیا تھا کہ وہ فوجی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت میں کچھ نہیں لکھیں گے۔
جب جنرل ایوب خان نے 1963میں آزادئ صحافت کو پابند کرنے کے لیے ایک سیاہ قانون ’’ پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس‘‘ جار ی کیا تو صحافیوں کی تنظیم پی ایف یو جے نے احتجاجی تحریک شروع کی۔ آئی اے رحمن نے اس آرڈیننس کی خامیوں کو اجاگر کرنے کے لیے ایک جامع قرارداد تحریرکی تھی جو تاریخ کا حصہ بن گئی۔ جب 1970میں پی ایف یو جے نے غیر صحافتی عملے کو ویج بورڈ کے تحت عبوری امداد دینے کے لیے 10 روزہ تاریخ ہڑتال کی تو اس ہڑتال کی پاداش میں آئی اے رحمن سمیت کئی سینئر صحافیوں کو ملازمتوں سے نکال دیا گیا۔ آئی اے رحمن، عبداﷲ ملک اور حمید اختر نے مل کر اردو کا اخبار ’’آزاد‘‘ شایع کیا۔
’’آزاد‘‘ اخبار 70ء کی دہائی کا مقبول اخبار تھا۔ ’’آزاد‘‘ اخبار میں پیپلز پارٹی کے علاوہ مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعتوں عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی کو مکمل کوریج دی گئی مگر جب جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو اقتدار دینے کے بجائے آپریشن کیا تو روزنامہ ’’آزاد‘‘ واحد اخبار تھا جس نے اس اقدام کی مخالفت کی اور پھر آئی اے رحمن کو مہینوں بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے ان برطرف صحافیوں کو بحال کرایا۔
جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (NDFC) کے رسالہ ’’ سینما‘‘ کے ایڈیٹر کے فرائض انجام دینے والے آئی اے رحمن کو برطرفی کا کاغذ پکڑا دیا، یوں پھر بے روزگاری کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ آئی اے رحمن مظہر علی خان کے رسالہ ’’ ویو پوائنٹ‘‘ میں کام کرنے لگے مگر 1981میں حکومت نے آئی اے رحمن سمیت سینئر صحافیوں اور ہزاروں ترقی پسند کارکنوں کو گرفتار کیا۔ آئی اے رحمن کو پہلے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیا اور بعد میں گھر سے دور بہاولپور جیل بھیج دیا گیا، وہ چھ ماہ تک اسیر رہے۔ جب 1958میں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت قائم ہوئی تو وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے آئی اے رحمن کو پاکستان ٹائمزکا چیف ایڈیٹر مقرر کیا مگر 18 ماہ بعد جب صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر حکومت کو برطرف کیا تو رحمن صاحب پاکستان ٹائمز سے مستعفی ہوگئے۔
آئی اے رحمن نے 90ء کی دہائی میں انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے غیر ریاستی ادارہ انسانی حقوق کمیشن HRCP میں شمولیت اختیارکی اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ انھوں نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے تمام تر کوششیں کیں، انھیں دھمکیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ رحمن صاحب نے اس دوران پیپلز پارٹی کے سابق رہنما ڈاکٹر مبشر حسن، سینئر صحافی ایم بی نقوی اور حسن نقی وغیرہ کے ساتھ مل کر ’’ پاکستان انڈیا پیپلز فورم‘‘ کی بنیاد رکھی۔
ان کی کوششوں سے دونوں ممالک کے سیاسی رہنماؤں، دانشوروں، صحافیوں اور خواتین وغیرہ کو ایک دوسرے کے ملک جانے اور تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ رحمن صاحب نے ویزے کی پابندیوں کو نرم کرنے کے لیے مسلسل کوشش کی۔انسانی حقوق کی جدوجہد میں ایک وقت ایسا آیا کہ ان کے قریبی عزیز راشد رحمن ایڈووکیٹ کو قتل کردیا گیا مگر رحمن صاحب کے عزائم میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا۔ بعض صحافیوں کا خیال ہے کہ راشد کا قتل رحمن صاحب کے لیے کھلی دھمکی تھی۔ رحمن صاحب کا خواب تھا کہ پاکستان ایک حقیقی سیکولر جمہوری ملک بن جائے اور عوام کی ریاست پر حاکمیت قائم ہو مگر یہ خواب کب شرمندئہ تعبیر ہوگا؟ ابھی وہ وقت دور ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔