بلاگ: تابش شہزاد بٹ۔۔
ریاست کے چار ستون میں سے چوتھا ستون ذرائع ابلاغ (میڈیا) کا ہے۔ہر فرد ذرائع ابلاغ کی چکا چوند دنیا میں آنا چاہتاہے۔دیکھنے میں یہ شعبہ(صحا فت)بہت آسان اور آم کے جو س کی طرح میٹھا لگتا ہے۔لیکن جب انسان اس کی دنیامیں د اخل ہوتا ہےتوپھر کہیں کا نہیں رہتا۔۔جس نے اس فیلڈ میں چار سے چھ ماہ کام کرلیاسو وہ اس فیلڈکو چھوڑ نہیں سکتا اور اگروہ چھو ڑنا چاہے بھی تو یہ فیلڈاسے نہیں چھوڑے گی۔کیونکہ جب آن ڈیوٹی ہوتے ہیں تو مختلف لوگوں کے انٹرویوز کرتے ہیں۔جس میں اداکار،مختلف سیاسی رہنما،اور پولیس افسران شامل ہیں۔جس کے بعد آپ ایسے محسوس کرتے ہیں جسے گویا آپ ہوا و ں میں اُڑ رہے ہیں۔اور آپ کا دل کسی اور نوکری یاکام میں نہیں لگتا۔مجھے یاد ہے مجھےمیرے باس نے دوہزارگیارہ میں کہا تھاکہ اس فیلڈ میں وہی رہ سکتا ہے جواچھے گھرسے مطلب مڈل کلاس کا ہو۔۔ کیونکہ پہلے کچھ مہینے مفت کام کرنا پڑے گا پھر اخبار یا چینل کا مالک اس کی تنخواہ چوکیدار یا ڈرائیور سے بھی کم لگادیتا ہے۔۔ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی اگراُس نے اتنی تنخواہ لینی تھی تو وہ ذرا ئع ابلاغ کی ڈگری ہی نہ لیتا۔لیکن اُس وقت اُسے یہ ڈگری اور میڈیا کی دنیا بہت رنگین نظر آتی تھی۔
حال ہی میں میڈیا میں جو بحران آیا ہوا ہے۔چاہے وہ گورنمنٹ کا نجی چنیل کو اشتہار نہ دینا یا کوئی اور مسئلہ در پیش ہو اس میں صحافی کا کیا قصور ۔میڈیا مالکان اپنے اداروں سے بندے ایسے نکال رہے ہیں جسے وہ سعودی عرب میں مزدوری کے لیے گئے ہوں۔ یہاں میں ایک بات کا ذکر کرتا چلوں کہ کسی بھی شہر کے لوکل اخبار تو تنخواہ دینے کی بھی زحمت تک نہیں کرتے۔وہ سادہ لوح لوگوں کو رجسٹریشن کے نام پر فیس وصول کرتے ہیں۔اور بدلے میں اُن کو اُس اخبار کا کارڈ دیتے ہیں۔اور وہ شخص(فرد) ایسے خوش ہوتا ہے جیسے کسی معروف چنیل کا نیوز ڈائریکٹر بن گیا ہو۔اکژلوگ پوچھتے ہیں کہ کیا کام کرتے ہو تو بتانے کا دل بھی نہیں کرتا کیونکہ ہر دوسرے نے میڈیا کا کا رڈ بنایا ہوتاہے۔جس سے پروفیشنل صحافیوںکامورال گرتا ہے۔میں نے یہاں تک دیکھا ہے کہ لاری اڈہ پر بیت الخلااستعمال کرنے کے بعد باہر بیٹھے سوئپر کو پیسے دینے کی بجائے میڈیا کا کا رڈ دکھایا جاتا ہے جو کہ ایک افسوس ناک امر ہے۔اب تو گدھا گاڑی سے لے کرجنرل سٹور والے کے پاس بھی ایک سے دو میڈیا کے کا رڈہوتے ہیں۔ اس فیلڈ میں موجود کچھ گندے انڈوں نے صحافت کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیاہے اور تو اور موٹرساہئکل گاڑیوں پر بھی میڈیا،پریس لکھوایا جاتا ہے تاکہ پولیس ناکوں پر نہ روکا جائے۔یہاں پر اخبار کی چھپائی سے لے کر اخبار بیچنے والے تک سب صحافی کہلاتے ہیں۔حکومت اور ریاستی اداروں کو اس بات کا نوٹس لینا چاہے اور ایسی پالیسی مرتب دینی چاہے تا کہ ان عناصر یا افراد سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔
میڈیا بحران کی بات کریں تو کسی بھی چینل میں تین سے چار افراد کی تنخواہ پورے چینل کے انتظامی امور چلانے والوں سے زیادہ ہوتی ہے، مثال کے طور پر اگر دنیا نیوز کی با ت کریں تودنیا نیوزمیں کامران خان،مجیب الرحمن شامی، کامران شاہد کی تنخواہ چینل کے تمام انتظامی امور اور ورکرز کی تنخواہ ایک پلڑے میں رکھی جائے تو ان تین افراد کی تنخواہ سینکڑوں ا فراد کے اخراجات سےزیادہ ہی ہوگی،جو دنیا نیٹ ورک سے منسلک ہیں۔ دعاہے کہ جلد از جلد میڈیا کے بحران کو حکومتی سطح پرحل کیا جائے اور صحافتی تنظیمیں بھی اپنا کردارادا کریں۔ تا کہ بہت سے ورکرز اور صحافیوں کے گھروں کے چولھے ٹھنڈے نہ ہو سکے۔ (تابش شہزاد بٹ )۔۔
(بلاگر کی تحریر سے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)۔۔