تحریر: اعزاز سید
پاکستانی صحافت میں آج کل پوری تصویر دکھائی جاتی ہے نہ مکمل خبرسامنے آتی ہے۔ مکمل سچ مکمل کنڑول میں چلا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا بلکہ آج پیدا ہونے والی صورت حال ایک بتدریج عمل کا نتیجہ ہے۔
جنرل مشرف کے دور حکومت سے اب تک صحافت تین بنیادی ادوار سے گزر چکی ہے ۔ تیسرا دور مکمل ختم تو نہیں ہوا مگر چوتھا دور چپکے سے جنم لے چکا ہے۔ پہلا دور 2002 سے 2007 پر محیط ہے جو نئے دور کی صحافت کا آغاز ہے۔ دوسرا دور 2007 سے 2014کا دور ہے جو کافی حد تک آزاد صحافت کا دور ہے، جب کہ تیسرا دور 2014 سے آج تک کا دور ہے، جس میڈیا کے متنازع ہونے اور پابندیوں کا شکار رہنے کا دور ہے ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ چوتھا دور بھی سامنے آچکا ہے۔
صحافت کا پہلا دور:جب جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں نے اکتوبر 1999 میں ملکی اقتدار پر قبضہ کیا تو سال 2001 تک ملک ایک ایسے دور سے گزر رہا تھا، جہاں نجی ٹی وی چینلزکا نام و نشان نہیں تھا۔ اکتوبر 2002 میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شرائط پر عمل درآمد کرتے ہوئے پہلی بار باضابطہ طور پر نجی ٹی وی چینلز کو پاکستان میں کام کی اجازت دی گئی تو ملک میں صحافت کی اہمیت نئے اور موثرانداز میں اجاگر ہوئی۔ یوں میڈیا حالیہ سالوں کے پہلے اور نئے دور میں داخل ہوا۔ ایک ایسا دور جس میں ٹی وی چینلز نے آہستہ آہستہ خبروں اور تبصروں پر اجارہ داری حاصل کرنا شروع کردی۔ اس دور میں میڈیا نے اکتوبر2005 کے زلزلے میں بے مثال کردار ادا کیا۔ گھروں میں والدین اپنے بچوں کو سی ایس ایس کرنے ، ڈاکٹر یا انجنئیر بننے کے ساتھ ساتھ میڈیا جوائن کرنے کے مشورے بھی دینے لگے نتیجاﹰ یونیورسٹیوں میں میڈیا سے متعلق شعبہ جات میں طلبہ کا سیلاب آنے لگا۔ میڈیا کا یہ دوسرا دور نو مارچ 2007 تک قائم رہا۔ جس میں میڈیا ایک ایسے بچےکی طرح تھا جواپنے آپ اور اپنی طاقت سے آشنائی حاصل کرنے میں مگن تھا۔
دوسرا دور: نو مارچ 2007کو فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے تب کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کیا تو میڈیا ملک میں آمریت کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کا ہراول دستہ بن کر ابھرا۔ یہ میڈیا کے مجموعی طور پر دوسرے دور کا آغاز تھا۔ میڈیا بڑھ بڑھ کر طاقت کے مراکز کو چیلنج کر رہا تھا، یہ الگ بات کہ آمریت کے خلاف بننے والی علامت، سبکدوش چیف جسٹس درون پردہ طاقت کے انہی مراکز سے مذاکرات اور کچھ لو اور کچھ دو کی ڈیل میں مصروف تھے ۔ اس مرحلے پر پاکستان میں طاقت کے اصل مراکز کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ دن بہ دن طاقت پکڑتے اس میڈیا سے نمٹیں تو نمٹیں کیسے ؟ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کی بحالی کے بعد تین نومبر 2007 کو ایک بارپھر برطرفی کی گئی تو اس عمل میں ٹی وی چینلزبھی بند کردیے گئے اور اخبارات کو بھی کڑی ہدایات دی گئیں ۔ یہ اس دور میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے میڈیا کو مکمل طورپر کنٹرول کرنے کی پہلی بڑی کوشش تھی۔ معافی تلافی اور منت سماجت کے ساتھ بدلتے سیاسی حالات اور دن بدن کمزور ہوتے پرویز مشرف نے ایک وقفے کے بعد ٹی وی چینلز کو بحال کردیا۔ 18 اگست 2008 کو مشرف تو مستعفی ہوگئے ۔ مگر طاقت کے مراکز کی نظر حکومت کے ساتھ ساتھ میڈیا پر بھی اٹک گئی کیونکہ ملک میں صحافت ، طاقت کی ایک نئی شکل بن کر ابھری تھی جس نے اسٹیبلشمنٹ کے مراکز کو ہلا کررکھ دیا تھا۔ ظاہر ہے اسے کنٹرول کرنا بھی ترجیحات میں شامل ہوگیا تھا۔
اس دور میں میڈیا نے اپنی طاقت کے نشے میں کچھ غلطیاں بھی کیں ۔ میڈیا محض حقائق رپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ احتساب کا ایک ہتھیار بھی بن گیا تھا۔ طاقت کے مراکز کو سال 2008 میں میڈیا کی طرف سے ممبئی حملوں میں ملوث اجمل قصاب کی پاکستانی شہریت کی رپورٹنگ کا بھی بڑا رنج تھا۔ اس عمل کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دیا جارہا تھا۔ یہ عمل ملکی مفاد کی خلاف ورزی تھا یا نہیں یہ ایک مکمل الگ موضوع بحث ہے مگر یہاں ایک تاریخی درستگی بھی ضروری ہے ۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اجمل قصاب کی پاکستانی شہریت کی خبر پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ کے ٹی وی چینل جیو نیوز نے دی حالانکہ یہ سراسر غلط ہے ۔ یہ خبر سب سے پہلے دائیں بازو کےایک میڈیا گروپ نوائے وقت کے وقت ٹی وی نے نشر کی تھی ۔ بعدازاں یہ خبرڈان پر نشر ہوئی ۔ پھر ایک غیر ملکی اخبار نے اسے شائع کیا تو پاکستانی میڈیا کے تمام چینلز بشمول جیو نے اسے رپورٹ کیا۔ چونکہ لوگ دیکھتے ہی جیو تھے اس لیے طاقت کے مراکز بھی یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید یہ خبر جیو نیوز نے ہی سب سے پہلے دی جو کہ ہرگز درست نہیں۔(بشکریہ ڈی ڈبلیو)