تحریر۔عمران اللہ مشعل۔
میر شکیل کے وہ الفاظ کسی کو یاد ہے نا پانامہ کیس کے دوران ججزز سے متعلق غلط خبر شائع کرنے پر توہین عدالت کی نوٹس پے عدالت پیشی کے بعد کہا تھا
“ہم اپنا کاروبار خراب نہیں کرینگے صحافت جائے بھاڑ میں”
آج صحافی کیوں ایسے مالکان کی حمایت کرتے ہے؟۔ میڈیا بحران کی زمہ دار حکومت نہیں میڈیا مالکان ہے جو خود کروڑوں میں لیتے رہے ہیں جبکہ کام کرنے والے صحافیوں کو چند ہزار روپے پھر جب بھی پکڑے گئے تو آزادی صحافت کے نام پر حکومت کو بلیک میل اور عوام کو بے وقوف بناتے رہیے۔ اب یہ ممکن نہیں رہا ہے سوشل میڈیا نے نہ صرف الیکٹرانک میڈیا کو چیلنجز بلکہ بے نقاب بھی کیا ہے۔میڈیا مالکان کی ہر حکومت سے پارٹنر شپ ہوتی ہے جس میں وہ حکومت کے ساتھ ملکر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بناتے ہیں اور ہر طرح کی پرو پیگینڈے کا حصہ بن جاتے ہے اس کی عوض انہیں سرکاری اشتہارات کی مد میں کڑوروں روپے دیئے جاتے تھے۔۔ اس کے علاوہ بین القوامی این جی اوز کے ساتھ ملکر ملکی سلامتی اداروں کیخلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جارہا تھا جس کے عوض بھی کروڑوں روپے ملتے تھے۔جس سے میڈیا مالکان نے ملک اور بیرون ملک اربوں کی جائیدادیں بنائ۔مگر اب یہ نہیں ہورہا نہ ہی حکومت سے غیر ضروری طور پے میڈیا کو کچھ مل رہا اور نہ ہی این جی اورز سے کیونکہ این جی اوز کے حوالے اب قوانین سخت ہوگئے ہیں۔۔ یہ سب صرف میڈیا مالکان کی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ جو اصل صحافی ہے اپنی پیشہ ورانہ زمہ داریاں ہر صورت ادا کرتا ہے انکے تو نہ تو بنگلے نہ بینک بیلنس نہ ہی بڑی کوئ گاڑی وہ ہمیشہ ضمیر کی آواز پے لبیک کرتا ہے ایسے بہت سارے صحافی آج بھی موجود ہے لیکن ہمارے منافق معاشرے کی وجہ سے انہیں وہ نام اور مشہوری نہیں ملی جو دیگر جھوٹے دانشنوروں کو حاصل ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے موجود بحران کیسے پیدا ہوا ؟
سب سے پہلے اسکا آغاز اس وقت ہوا جب سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حکومتی اشتہارات میں سیاسی لوگوں کی تصاویر کے حوالے سے سوموٹو نوٹس لیا جس کے بعد سماعت کے دوران میڈیا کے حوالے سے ہولناک انکشافات سامنے آئے کہ اشتہارات کی بنڈر بانت کیسے کی جاتی ہے، کس طرح حکومت نواز چینلز کو نواز جاتا ہے اور کیسے چینلز کی ریٹنگ فکس کی جاتی تھی اور ہر چینل کے زمے کتنے کڑور واجب الادا ٹیکس شامل ہے ۔یہ سب جب عدالت کے سامنے آیاتو عدالت نے سب سے پہلے اشتہارات کی مصنفانہ تقسیم کا حکم دیا اور غیر ضروری اشتہارات پر پابندی لگائ، اسکے علاوہ چینلز کی ریٹنگ جو کہ پہلے پرائیویٹ کمپنی میڈیا لاجک اور پی بی اے طے کرتی تھی اسے اب پیمرا کے حوالے کردی جس سے ریٹنگ پہلے جس طرح زیادہ اور کم کی جاتی تھی اب وہ ممکن نہیں پھر پیمرا کے حوالے سے معزز عدالت نے احکامات دیے پیمرا کو پہلے سے زیادہ مضبوط کیا، اب پیمرا نہ صرف چینلز کو جرمانہ کرتی ہے بلکہ خلاف ورزی پر کارروائی بھی کرتی ہے جبکہ پہلے ایسا ممکن نہیں تھا۔
اشتہارات کے حوالے سے نئی حکومت نے نظرثانی کی جو اشہتارات پہلے لاکھوں میں ملتے اب وہ ہزاروں میں ملتی ہے اور ایسے غیر معروف چینلز جسے پہلے نوازا گیا نوازا گیا اب انکو بھی انکی ریٹنگ کے مطابق اشتہارات مل رہے ہے جو کمرشل پرائیویٹ اشہتارات ہیں انکا بھی بڑا حصہ اب دیجیٹل میڈیا کی طرف گیا لوگ اب الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ ڈیجیٹل میڈیا دیکھتےہیں، اس سے بھی الیکٹرانک میڈیا کو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے جو خبر الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اپنی ہیڈ لائن بنا کے اگلے دن کے لیئے رکتھے ہیں وہ سوشل میڈیا پے اس سے پہلے سامنے آجاتی ہے۔ اسی طرح غلط خبروں اور پراپگینڈوں کیوجہ سے الکٹرانک میڈیا اپنی ساکھ قائم نہیں رکھ سکا ۔۔
موجودا حکومت نے ابھی تک میڈیا چینلز کیخلاف صرف 30 فیصد کارروائ کی تو چینلز بند ہونے کو آگئے یہ تھی انکی جھوٹ کے سہارے پر قائم ادارے جنکی مستقبل کے حوالے سے کوئی بھی مثبت پلاننگ نہیں تھی صرف مالکان اپنی دولت کی فکر کرتے رہے جس کی وجہ سے آج بحران آنے پر ملازمین کو جبری طورپر فارغ کرکے یہ تاثر دے رہے کہ حکومت کیوجہ سے میڈیا بحران ہے۔اب موجودو بحران جس سے تقریبا تمام بڑے میڈیا چینلز نے اپنے سٹاف میں نہ صرف کمی کیا بلکہ تنخواہ میں بھی کٹوٹی کی اور ہزاروں ورکرز کو انکی تنخواؤں کی مد واجب الاد رقم ادا بھی نہیں کی اس میں حکومت کا کسی بھی قسم کا کوئ قصور نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے جتنا ہوسکے موجودہ میڈیا سسٹم کے حوالے سے قوانین سخت کریں جھوٹی خبر چلانے اور بنانے والے پر جرمانہ اور قید کی سزائیں مقرر کریں اور عوام کی ٹیکس کی پیسوں سے غیر ضروری ایک روپے کا بھی اشتہارات نہ دی جائیں اور تمام چینلز مالکان کی جائیدادیں ضبط کرکے میڈیا ملازمین کی تنخوائیں ادا کی جائے۔(عمران اللہ مشعل)۔۔
(عمران جونیئر ڈاٹ کالم کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)