تحریر: امتیاز گل۔۔
ذرائع ابلاغ یا میڈیا کسی بھی مہذب معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے جس میں معاشرہ اپنی کمیاں کوتاہیاں دیکھتا ہے اور میڈیا کی مدد سے عوام اپنے حکمرانوں پر نظر بھی رکھتے ہیں۔ ”خبر جو بھی ہو اور جیسے بھی ہو‘‘ کی بنیاد پر قوم کے سامنے حقائق رکھنا صحافتی اداروں کے اولین فرائض میں شامل ہے۔ جن اقوام کو خبریں توڑ مروڑ کر پیش کی جاتی ہیں وہ یا تو تباہ ہوچکے ہیں یا پھر تباہی کے دھانے پر ہیں۔پرویزمشرف کے دور تک پاکستان میں پرنٹ میڈیا کا ادارہ ایک مضبوط وجود کے ساتھ متحرک تھا‘الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں صرف پی ٹی وی تھا اور وہ بھی سرکاری چینل کی حیثیت سے صرف حکومتی پالیسیوں کا پرچار کرتا تھا‘ پھر نجی ٹی وی چینلوں کا دور شروع ہوا جس نے پاکستانی صحافت کو ایک نئی سمت دی۔ پی ٹی وی کی اجارہ داری ٹوٹ گئی‘ مقابلے کی فضا قائم ہوئی اور ایک دوسرے پر سبقت لینے کی دوڑ میں غیر سنجیدہ خبروں کو بھی اہمیت مل گئی۔ اب اگر غور کیا جائے تو سوال یہ ہے کہ جو خبریں مجھے اخبار یا ٹی وی کے ذریعے پہنچائی جار ہی ہیں وہ واقعی حقیقت اور ایمانداری پر مبنی ہیں یا نہیں ؟
پاکستان میں نجی ٹی وی چینلوں کے آنے سے ایک طرف روزگار کے مواقع کھلے‘ عوام کی حالت کو حکومتی ایوانوں تک پہنچانے میں مدد ملی تو وہیں دوسری طرف اس کے منفی پہلو بھی سامنے آئے۔ ہر نجی صحافتی ادارہ‘ چاہے وہ اخبار ہو یا ٹی وی چینل‘ اس کے مالکان کے نظریات حکومت کے متوازی بھی ہو سکتے ہیں اور مخالف بھی اور انہی نظریات کا عکس اکثر اوقات ان کے اداروں پر بھی نظر آتا ہے۔ جب ان ذاتی نظریات کا عکس اداروں پر نظر آتا ہے تو خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید خبریں کچھ خاص مراحل سے گزر کر قارئین ‘ سامعین تک پہنچ رہی ہیں اور ایسا صرف اداروں کے مالکان نہیں کرتے بلکہ حکومتی سطح پر بھی کیا جاتا ہے جس سے خبریں مستند نہیں رہتیں بلکہ ملاوٹ شدہ یا یکطرفہ ہوجاتی ہیں۔ پاکستانی میڈیا نے مختلف اوقات میں اگر سخت ترین پابندیاں دیکھیں وہاں اپنی بے پناہ طاقت کے مزے بھی لوٹے۔ کچھ عرصہ پہلے آصف شبیر صاحب‘ جو میرے استاد کی حیثیت رکھتے ہیں ‘ کے ساتھ ایک طویل نشست ہوئی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستانی میڈیا پر جتنی پابندیاں جنرل ضیاء الحق کے دور میں دیکھنے کو ملی تھیں اتنی کسی اور دور میں نہیں دیکھیں۔ ان کے بقول: ایک فوجی افسر اور آر او (انفارمیشن افسر) باقاعدہ اخبار کی کاپی کو چیک کرتے تھے اور ان کی اجازت کے بعد ہی اخبار چھپتاتھا۔ یہ تو بہت سے لوگوں کے مشاہدے میں ہوگا کہ اس زمانے میں اخبار کا کوئی حصہ اگر سنسر ہوتا تھا تو وہ اسی طرح خالی ہی چھپ جاتا تھا جو کہ دیکھنے میں بھی بہت عجیب لگتا تھا اور اس طرح سب کو پتا چل جاتا تھا کہ یہاں سے خبر غائب ہے۔ اخبارات میں خالی جگہوں کو دیکھ کر جب لوگوں نے پوچھنا شروع کیا تو حکومت کی جانب سے حکم دیا گیا کہ خالی جگہوں پر کچھ نہ کچھ چھاپا کریں‘ تو اخبار والوں نے وہاں قینچیاں چھاپنی شروع کر دیں۔ پھر کہا گیا کہ نہیں! باقاعدہ خبریں ہونی چاہئیں تو ایڈیٹرز نے عجیب و غریب خبریں لگوانا شروع کر دیں ‘ جیسے گدھا نالی میں گرگیا‘ راستے میں لوٹے لڑھک گئے‘ وغیرہ۔یہاں گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ اُس زمانے میں صحافی اصولوں کی خاطر ایک آمر کے سامنے کھڑے ہوگئے تھے جن میں منہاج برنا صاحب‘ آئی اے رحمان صاحب‘ علی احمد خان صاحب‘ ضیا الدین صاحب‘ شاہد الرحمن صاحب‘ اے آر صدیقی صاحب‘ ناصر زیدی صاحب‘ اے ڈی چوہدری صاحب سمیت بہت سے ایسے صحافی شامل ہیں جن کی بہت قربانیاں ہیں۔ جنہوں نے اپنے نظریات میں لچک نہ لانے کی وجہ سے جیلیں بھی کاٹیں‘ مگر یہ لوگ پھر بھی کمزورنہ پڑے اور اپنے اصولوں سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ اب اس کا مقصد ہرگزیہ نہیں کہ سارے صحافی پابندیوں کے اُس دور میں پستے رہے بلکہ اس وقت کئی ایسے بھی تھے جو حاکم ِوقت کے ساتھ مل کر مزے بھی کر رہے تھے لیکن پسنے والوں کی تعداد مزے کرنے والوں کی تعداد سے بہت زیادہ تھی۔ اُس زمانے کے وہ صحافی آج کل آپ کو کم کم ہی دکھائی دیں گے‘ جو اپنے زمانے کے لیجنڈز تھے۔
آصف شبیر صاحب سے جب میں نے پوچھا کہ آپ نے گوشہ نشینی کیوں اختیار کی تو کہنے لگے کہ آج کل صحافت میں رہ کیا گیا ہے؟ کتنے ایسے صحافی ہیں جو اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتے‘ کتنے ایسے ہوں گے جنہوں نے پیسہ نہیں بنایا بلکہ صحافت کو صحافت ہی کی طرح ادا کیا؟ بقول ان کے صحافت اب نظریاتی نہیں رہی‘ کمرشل ہو چکی ہے۔ پوری دنیا میں یہی چل رہا ہے کہ بڑے بڑے کاروباری ادارے جس طرح دیگر صنعتوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں‘ میڈیا میں بھی ان کی دلچسپی بڑھی ہے۔ کاروباری اداروں کی میڈیا میں دلچسپی کو اس طرح بھی دیکھا جاتا ہے کہ کاروباری ادارے رائے عامہ پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔مغربی ممالک ‘ جہاں کمرشل اداروں کی میڈیا میں سرمایہ کاری کی لمبی تاریخ ہے‘ وہاں بھی یہ رائے پائی جاتی ہے؛ تاہم میڈیا کے اداروں میں اضافے کے ساتھ کارکن صحافیوں کے لیے جہاں فائدے ہوئے وہاں بعض اداروں میں تنخواہوں کا مسئلہ بھی سامنے آیاہے۔ کتنے ہی ادارے ہوں گے جو اپنے ملازمین کو باقاعدگی سے تنخواہیں نہیں دیتے یا پھر حالات کے حساب سے کم دیتے ہیں۔ ایسا پہلے بھی ہوتا تھا اور اب بھی ہورہاہے اورصحافی اس مسئلے کی شکایات کرتے بھی پائے جاتے ہیں۔گزشتہ دنوں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی ‘ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ ایسوسی ایٹ پروڈیوسر کے حیثیت سے گزشتہ سات ماہ سے ایک جگہ کام کر رہے ہیں‘ انتظامیہ کہتی تھی کہ تین ماہ بعد آپ کی تنخواہ شروع کر دی جائے گی لیکن سات ماہ ہوچکے ہیں اور ابھی تک تنخواہ یا معاوضے کی مد میں کچھ بھی ادا نہیں کیا گیا۔ اب مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اداروں کے پاس پیسہ نہیں ہے یا وہ کما نہیں رہے ‘ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ملازمین کے حصے کا پیسہ ان کو منتقل نہیں کیا جارہا ‘ اوریہ رویہ صحافت کے معیار پر اثر انداز ہوتا ہے۔کسی بھی صنعت کی طرح‘ صحافت میں بھی کارکنوں کی اجرت کا پراڈکٹ سے گہرا تعلق ہے۔ صحافت میں آنے کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں یونیورسٹیاں خصوصی تعلیم اور ڈگریاں فراہم کرتی ہیں۔اسی تعلیم و تربیت سے انسان صحافتی رموز سے واقف ہوتا ہے لیکن آج کل اگر کسی بندے کی آواز اچھی ہے ‘ شکل بھی ٹھیک ہے اور قسمت بھی ساتھ دے رہی ہے تو وہ بس کسی پروگرام میں بیٹھ کر اینکر بن جائے گا ‘خود کو جید صحافیوں میں بھی شمار کرنے لگ جائے گا حالانکہ ان اینکر صاحب نے پرنٹ میڈیا میں ایک گھنٹہ بھی کام نہیں کیا ہوگااور نہ ہی کہیں رپورٹنگ کی ہوگی۔ پرنٹ میڈیا صحافت کی ماں سمجھی جاتی ہے‘ لیکن میں بہت سے ایسے صحافیوں کو جانتا ہوں جنہوں نے صحافت پڑھی ہے اور نہ ہی ان کو صحافتی اقدار کا علم ہے۔
مجموعی طور پر صحافت مسلسل ایک ارتقائی عمل سے گزر رہی ہوتی ہے ‘ جہاں جدت کے بہت سے مثبت پہلو ہوتے ہیں وہاں منفی پہلو بھی پائے جاتے ہیں۔ کمرشلائزیشن بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پابندیوں اور نرمیوں کا دارومدار حکومتی ایوانوں اور بعض صاحبانِ مسند کے نظریات اور اعصاب پر ہوتا ہے۔ معاشروں کے اصل رنگ کا اندازہ بہرحال اسی سے لگایا جاتا ہے کہ صحافت آزاد ہے یا پابند۔(بشکریہ دنیا)