ارشد شریف شہید کی بیوہ جویریہ صدیق کا کہنا ہے کہ ۔۔۔سوچ و فکر‘ ادب و صحافت پر بھی دھند چھائی ہوئی ہے۔ لوگ ظالم کے آلہ کار تو بن سکتے ہیں لیکن مظلوم کا ساتھ کوئی نہیں دے رہا۔ خوشامدی تو بہت ہیں مگر حق بات کرنے والے بہت کم ہیں۔ جو وقتی مفادات کی خاطر اصولوں پر سمجھوتا کر لیتے ہیں‘ وزارتیں قبول کر لیتے ہیں‘ وہ یہاں عروج پا جاتے ہیں اور جو سچ کا راستہ اختیار کرتے ہیں وہ تاریک راہوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ ارشد شریف‘ ناظم جوکھیو‘ ولی بابر۔۔ ایک طویل فہرست ہے جن کا جرم سچ بولنا تھا اور وہ اس کرپٹ نظام کی دھند میں کھو گئے۔ جو اس کرپشن کے سسٹم کا حصہ بن جاتے ہیں‘ وہ ترقی کرتے رہتے ہیں‘ ان کو مراعات ملتی رہتی ہیں مگر جو انکار کرتے ہیں‘ ان کی زبان بندی کر دی جاتی ہے۔روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والے اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتی ہیں کہ۔۔ملک میں دھند اتنی بڑھ چکی ہے کہ انٹرنیٹ کبھی بند ہو جاتا ہے تو کبھی سست ہو جاتا ہے‘ کبھی سوشل میڈیا ایپس کام کرنا چھوڑ جاتی ہیں۔ اس دھند میں اچھے بھلے انسان لاپتا ہو جاتے ہیں‘ ان کے لواحقین شور مچاتے رہ جاتے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ شاہراہِ دستور پر بھی ایک دھند چھائی ہوئی ہے جس کے پار بیٹھے مظلومین اشرافیہ کو دکھائی نہیں دے رہے۔ ان کے آنسو‘ آہ وبکا اور غم و دکھ اس شدید دھند میں اشرافیہ کو بالکل نظر نہیں آ رہے۔ غرور و تکبر اور طاقت و رعونت کی دھند سوچنے‘ دیکھنے‘ سننے اور سمجھنے کی صلاحیت کو بھی ختم کر دیتی ہے۔ اسی کی وجہ سے معاشرہ تنزلی کا شکار ہو چکا ہے۔۔