pakistani sahafi kese soch rhe hein

صحافت، دلچسپ جملےاورپاکستان

تحریر: محمد ولید احمد، رپورٹر جیونیوز۔۔

صحافت خوشامد نہیں بلکہ چیلنج کرنے کانام ہے۔ اصل خبر وہ ہے جسے کوئی چُھپانا  چاہے مگر صحافی اسے چھاپ دے، چلنے اورچھپنے والی خبرسے اشتہارکاری کاتاثر اجاگرنہیں ہوناچاہئے، نامور شخصیات نےصحافت کو عجب نظر سے دیکھا ہے مثلاً نارمل میلر نےکہہ دیا کہ “جو ناول نگار یا وکیل نہ بن سکے اور آپریشن کرتے ہوئے جس کے ہاتھ کانپیں وہ صحافی بن جاتا ہے” سیدھے لفظوں میں جسے کچھ نہ آئے، قسمت اسے گھسیٹ کرصحافت میں لے آتی ہے، البتہ نارمل میلر خود بھی نامور صحافی تھے اور ان کی گیارہ کتابیں بیسٹ سیلنگ رہی ہیں۔ پاکستانی میڈیا تصویرکی عکاسی کرتا ہے۔ یہاں جنہیں کہیں داخلہ نہ ملے، روزگارنہ ملے وہ صحافت میں چھکے چوکے مارتے ہیں۔ مارول سیریز کے تخلیق کار برطانوی مصنف وارن ایلیس نے یہاں تک کہہ دیا کہ “اگر آپ دکھی، چڑچڑے اورتھکے ہوئے ہیں تو آپ صحافی بننے کیلئے تیارہیں”۔ پاکستان میں “چوٹی کے صحافی”  آپ کو گالی دیتے، غیرمناسب گفتگو کرتے، چیختے چلاتے،غصہ دکھاتے نظر آتے ہیں اور ایسے حالات میں وارن کی بات سولہ آنے سچی لگتی ہے۔ صحافیوں، تجزیہ کاروں اوراینکروں کے چڑچڑے پن کا ہرشام تماشہ لگتا ہے۔ امریکی سیاستدان ہیلری کلنٹن نے مزاحیہ انداز میں بہت بڑا فقرہ اڑادیا “اگر میں اخبار کے پہلے صفحے پر خبر شائع کرواناچاہوں تو مجھے صرف بالوں کا اسٹائل تبدیل کرنا ہے” یہ جملہ صحافت کی غیر سنجیدگی پرزور دار تھپڑ ہے، میرا، قندیل بلوچ، حریم شاہ جیسی خواتین کے بارے میں جو کچھ دکھایاجاتاہے وہ ہیلری کی بات سچ ثابت کرتا ہے۔ معروف امریکی صحافی کرسٹوفر نے کہا “میں صحافی اس لئے بناہوں کیوں کہ جو اخبار میں لکھا جاتا ہے اس پر میں یقین نہیں کرسکتا”  مطلب اخبار اور ٹی وی پر سچ واضح نہیں ہوتا اس لئے کرسٹوفر نے سوچ کی کھوج کیلئے صحافی بننے کا فیصلہ کیا، کینیڈین شاعرہ مارگریٹ ایٹ ووٹ نے صحافیوں کی رگ پر پیر رکھ دیا، بولیں “صحافیوں کو بری خبریں اچھی لگتی ہیں تاکہ وہ اپنے اخبارات فروخت کرسکیں” ایک طرف تو غیرسنجیدہ کردار اہم بنائے جاتے ہیں تو وہیں اخبار یا اسکرین کے دام کیلئے بری خبروں پر مرچ مصالحہ لگا کر انہیں مزید چٹ پٹا بنایا جاتا ہے تاکہ ناظرین اور قارئین کی توجہ سمیٹی جاسکے، مثلاً حالیہ سیلاب میں کروڑوں افراد متاثر ہوئے، خبروں کے بیک گراونڈ میں افسردہ میوزک لگایاجاتا، چیخیں سنا کر خبرکو مزید تکلیف دہ بنایاجاتا ، ہردکھی خبر پر مایوسی کا میوزک لگانا ثابت کرتا ہے کہ کینیڈین شاعرہ  ٹھیک سمھجتی ہیں، افسردہ خبروں کی مانگ میں اضافے کیلئے انہیں مزید مایوسی کا لباس پہنایا جاتا ہے۔ عظیم سماجی کارکن مدر ٹریسا نے ایک موقع پر کہا کہ “میڈیا سے نمٹنا کوڑھ کی بیماری کا مقابلہ کرنے سے زیادہ مشکل ہے” کچھ بے رحم مثالیں آپ کے سامنے رکھتے ہیں، کراچی میں ایک نوجوان جھگڑے کے دوران گولی کا نشانہ بن گیا، مقتول نوجوان کے بھائی کو ڈاکٹر آواز دیتا ہے پیچھے سے ایک صحافی آکر ہاتھ پکڑکرکہتا ہے مجھ سے بات کرلیں پھر ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں، پولیس نے بائیک نہ روکنے پر ایک نوجوان کو قتل کردیا، صحافی اسپتال کے باہر مقتول کی ماں سے پوچھ رہے ہیں آپ اپنے بچے سے کتنی محبت کرتی تھیں، ایسے غیرذمے داررویے مدرڈریسا کی بات درست ثابت کرتے ہیں کہ میڈیا کوڑھ کی بیماری سے زیادہ خطرناک ہے۔

جہاں یہ تلخ باتیں تو وہیں صحافت پر کچھ دلکش جملے سونے میں تولنا چاہئیں مثلاً امریکی نائب صدرتھامس ہینڈرک نے کہا کہ “جعلی خبرآگےبڑھانا آسان جبکہ چُھپی خبر تلاش کرنا مہارت ہے” بااعتماداورپروقار پاکستانی صحافیوں نے صحافت کی لاج رکھی ہے، عدالتوں میں فیصلے واٹس ایپ پر کیسے ہوتے رہے،سیاستدانوں نے پاناما میں جائیدادیں کیسے بنائیں، بڑے عہدوں پر کس نے کیسے اثاثے اکٹھا کئے، یہ وہ خبریں ہیں جنہوں نے سیاسی میدان میں ہلچل پیدا کی ہے۔ برطانوی مصنف ٹام اسٹوپر کہتے ہیں “اگرآپ بہترین دنیاتخلیق کرناچاہتے ہیں تو صحافت کے ہتھیار کو استعمال کیجئے” شک نہیں ایسے صحافی ضرور ہیں جو صحافت کوعبادت سمجھتے ہیں اُن کیلئے صحافت صرف نوکری نہیں بلکہ مشن ہے تاہم اس سچ سے بھی انکار نہیں کہ پاکستان میں اخبار اور ٹی وی مالکان صحافت کے ہتھیار کو اپنی جائیدادیں بنانےاور چھپانے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ میڈیا میں آہستہ آہستہ زمینوں کے مالکان پنجے گاڑرہے ہیں، ملازم صحافی اُن کی انگلی کے اشاروں پرنہ چلیں تونوکری کوخداحافظ کہیں۔ خیر، موسیقار فرینک ذپا نے صحافت کابڑا راز افشا کیا وہ یہ کہ “صحافی اُن کی آواز ہے جو لکھنا پڑھنا اور بولنا نہیں جانتے، عام شخص حکمرانوں کے دربار پرلگی زنجیر نہیں کھینچ سکتا” اس لئے صحافی سیاسی جماعتوں کا ترجمان نہ بنے بلکہ عوام کاترجمان بنے کیوں کہ مستند، پُروقار اور بااعتماد صحافت ہی معاشرے کو آکسیجن فراہم کرسکتی ہے۔(محمد ولید احمد، رپورٹرجیونیوز)

ابصارعالم حملہ کیس، ملزمان پر فردجرم عائد نہ ہوسکی۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں