تحریر: شہزاد چغتائی۔۔
جو صحافی اس وقت برسر روزگار ہیں وہ بھی دراصل بے روزگار ہی ہیں ۔۔۔۔ان کی تنخواہیں نہ ہونے کے برابر ہیں میں سب دوستوں سے کہتا ہوں کہ اپ لوگ صحافت کے ساتھ کوئی نہ کوئی دوسرا کام ضرور کریں صحافت اب پیشہ نہیں بلکہ شوق ہے اور شوق سے پیٹ نہیں پالا جا سکتا ۔۔۔۔۔بلکہ اب امین راجپوت کی افسوسناک موت کےبعد تو اس نتیجے پہنچا ہوں کہ دوستوں کو صحافت سے ہی کنارہ کشی حاصل کر لینی چاہیے یہ جملہ اب بہت پرانا ہو گیا ہے کہ ہمیں کوئی اور کام نہیں اتا بھائی جان اپ کچھ بھی کر لیں مگر خدا کے لیے صحافت چھوڑ دیں میں جب صحافت میں ایا تھا تو مجھے حشمت حبیب ایڈوکیٹ جو کہ پہلے صحافی تھے انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں صحافت چھوڑ دوں اور کوئی دوسرا کام کروں۔
انہوں نے تین دن تک مجھے مسلسل سمجھایا لیکن مجھ پر صحافت کا بھوت سوار تھا لیکن اس زمانے میں صحافیوں کی تنخواہ ڈپٹی کمشنر سے زیادہ ہوا کرتی تھی میں رپورٹر تھا لیکن میری تنخواہ مشرف دور تک ڈپٹی کمشنر سے زیادہ رہی 95 میں جب اخباری مالکان نے ویج بورڈ دینے سے انکار کیا تھا تو صحافی بھکاری بن گئے تھے اور مجھے ہر وقت حشمت حبیب ایڈوکیٹ یاد اتے رہتے تھےُ۔ ۔۔جن سرکاری محکموں میں جاتا تھا وہاں کے کلرک اور چپڑاسی ڈائریکٹر بن گئے تھے۔۔۔۔لیکن اج سے اٹھ دس سال پہلے تک حالات پھر بھی بہتر تھے زندگی بھر تنخواہ اتنی رہی کہ گھر کا خرچہ چل جاتا تھا میرا تو کوئی خرچہ ہی نہیں تھا اب حالات بہت بدل گئے ہیں بڑے اخبارات بھی بہت کم تنخواہ دے رہے ہیں ویج بورڈ کا تو نام و نشان مٹ گیا ہے کانٹریکٹ پہ ملازم رکھتے ہیں کئی سو چھوٹے اخبارات نکل گئے ہیں اور بڑی تعداد میں ان لائن اخبارات بھی میدان میں اگئے ہیں چھوٹے اخبارات اٹھ دس ہزار سے زیادہ تنخواہ نہیں دیتے اس لیے میں دوستوں کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ اپ ملازمت کے ساتھ کوئی دوسرا کام ضرور کریں یا صحافت چھوڑ دیں اپنے ساتھ اور بچوں کے ساتھ زیادتی مت کریں جب سے میڈیا کے حالات خراب ہوئے ہیں اب تک اٹھ دس صحافی موت کے منہ میں جا چکے ہیں ایک دو خودکشی بھی کر چکے ہیں راجپوت نے خودکشی ہی کی ہے جو صحافی میڈیا میں کام کر رہے ہیں وہ اجتماعی خودکشی ہی کر رہے ہیں اور اپنے گھر والوں کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں ۔۔۔ویسے میں پریس کلب پی ایف یو جے اور کے یو جے کو مشورہ دوں گا کہ وہ بے روزگار صحافیوں کے لیے کوئی فنڈ ضرور قائم کر دے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے درخواست کریں کہ اس فنڈ میں سالانہ کی بنیاد پر گرانٹ دیں جس سے بے روزگار صحافیوں کی مدد کی جا سکے ۔ ورنہ امین راجپوت جیسے صحافی مرتے رہیں گے اور سانحات جنم لیتے رہیں گے ۔ ۔میں نے زندگی صحافی دوستوں کے ساتھ ہی گزاری ہے اور گزار رہا ہوں ان سے رابطے میں رہتا ہوں میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ اس وقت کئی سو صحافی امین راجپوت جیسی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ایک بات بتاؤں کہ اج پتہ نہیں کیپٹن کی تنخواہ کتنی ہوگی لیکن جب مجھ پر فوجی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا تو ایک کیپٹن سے گپ شپ ہو رہی تھی اس نے مجھ سے پوچھا کہ اپ کی تنخواہ کتنی ہے جب میں نے اس کو اپنی تنخواہ بتائی تو اس کی انکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی اور وہ کہنے لگا کہ میری تنخواہ تو اپ سے بہت کم ہے جبکہ میں فوج میں کیپٹن ہوں ۔۔۔اب اپ اندازہ لگا لیں کہ صحافت کا پیشہ کس قدر زوال پذیر ہے اب ہماری کوئی عزت بھی نہیں ہے۔(شہزاد چغتائی)۔۔